کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 491
ثابت قدم رہنے، منہجِ دین کو ہمیشہ اپنائے رکھنے، اس کی حدود و قیود سے تجاوز نہ کرنے، اس کے اوامر کی اطاعت کرنے اور نواہی و زواجر سے باز رہنے کے بہترین طریقے اور اسلوب کے ذریعے ہدایت دیتی ہیں۔ آئیے اب مشکاتِ نبوت سے پھوٹتے نور کی ایک تجلی بھی ملاحظہ فرمائیے، جس میں انتہائی عمدہ عبارت اور جلیل القدر معنیٰ و مفہوم والی وصیت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت پوری امتِ اسلامیہ کے لیے ہے جو ایمانِ کامل، اعتقادِ صحیح، اطاعت و عبادت پر صبر و ثبات کے ساتھ التزام، ممنوعات و محظورات سے کلی اجتناب، عمدہ اخلاق و کردار اور اعلیٰ معاملات والا ہونے کا پتا دیتی ہے۔ کسی دیہاتی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایسی وصیت فرمائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھے کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ )) [1] ’’کہہ دیجیے کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ثابت قدم رہو۔‘‘ یہ وصیتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اندر امتِ اسلامیہ کے تمام افراد اور حکّام و عوام کے لیے باسعادت زندگی کی ضمانت لیے ہوئے ہے۔ یہ اہلِ ایمان کے لیے ابدی سعادت و خوشی اور پرامن انجام و عاقبت کی ضامن ہے، جیساکہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾ [حم السجدۃ: ۳۰] ’’واقعی جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے ، ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے) آتے ہیں کہ تم کچھ اندیشہ اور غم نہ کرو بلکہ اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیے گئے ہو۔‘‘ اور ایک جگہ فرمایا ہے : ﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ .
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۸)