کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 479
مغلوب کرنے والی بات (واضح دلیل) نہ پہنچ جائے، اور اگر کسی مسلمان بھائی کے منہ سے کوئی بظاہر برا کلمہ نکل جائے تو اس کے بارے میں بدظنی میں مبتلا نہ ہو جاؤ، خصوصاً جب تک کہ تم اس کلمہ کو کسی خیر کے پہلو پر محمول کر سکو۔‘‘[1] یہ طرزِ عمل اہلِ علم و فضل اور اصحابِ خیر و برّ لوگوں کے ساتھ بالخصوص اختیار کرنا چاہیے، جبکہ بعض لوگ جو دوسروں کے بارے میں اپنے فیصلے صادر کرتے ہیں اور ان کی شخصیتوں، نیتوں اور مقاصد کو بھی نہیں جانتے ہوتے تو وہ صحیح منہج نہ پانے کی وجہ سے صحیح فیصلہ نہیں کر سکتے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کسی سے محض سبقت لسانی سے کوئی کلمہ نکل گیا ہو ، اور اس کی کسی بری بات کی کوئی نیت ہرگز نہ ہو، جیساکہ علامہ ابن قیّم رحمہ اللہ نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ایک ہی کلمے کو دو الگ الگ شخص کہتے ہیں، ان میں سے ایک کی نیت باطل ہوتی ہے اور دوسرا اس سے خالص حق کی نیت رکھتا ہے، ان دونوں میں اعتبار کہنے والے کے طریقے، اس کی سیرت و کردار، اس کے مذہب اور اس کی دعوت کا ہوگا۔‘‘[2] یہی وجہ ہے کہ جس نے خوشی و مسرت کے جذبات سے مغلوب ہوکر یہ کہہ دیا: (( اَللّٰھُمَّ أَنْتَ عَبْدِيْ وَأَنَا رَبُّکَ )) [3] ’’اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔‘‘ اسے کافر قرار نہیں دیا گیا تھا، کیونکہ اس نے اپنے آپ کو الٰہ بنانے کا قصد و ارادہ نہیں کیا تھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے بعض مخالفین کی بات کو نقل کرکے لکھتے ہیں: ’’اس کلام میں اجمال پایا جاتا ہے اور صاحبِ حق شخص اسے اچھے احتمال پر ہی محمول کرے گا اور جو صاحبِ حق نہیں ہے وہ اس میں کئی اشیا کو داخل کرے گا …۔‘‘[4] یہ وہ اعلیٰ منہج اور مکمل غیر جانبداری والا طرزِ عمل ہے جس کی تربیت ہمارے سلف صالحینِ امت نے پائی تھی۔ اس امت کے علما نے عدل و انصاف کرنے کا حق ادا کردیا۔ انھوں نے متعدد
[1] شعب الإیمان للبیھقي (۶/ ۳۲۳) [2] مدارج السالکین (۳/ ۵۲۱) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۳۰۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۷۴۷) [4] الاستقامۃ (۱/ ۹۲)