کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 467
توبہ و استغفار: توبہ و استغفار پر اعمالِ صالحہ کا اختتام ہوتا ہے اور اسی پر ہم نماز، حج، قیام اللیل اور مجالس کا اختتام کرتے ہیں، اسی طرح روزوں کو بھی توبہ و استغفار ہی پر ختم کرنا چاہیے، تاکہ غفلت و بھول چوک اور تقصیر و انحراف کا کفارہ ہوسکے۔ استغفار دل سے تکبر و غرور اور اعمال پر فخر و مباہات کے احساس کو دور کرتا ہے بندے کو تقصیر و کوتاہی کا احساس ہوتا ہے، اور یہ شعور و احساس بندے کو رمضان کے بعد بھی عمل صالح پر آمادہ کیے رکھتا ہے، جس سے نیکیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں، میزانِ حسنات و میزانِ صالحات بھاری ہوجاتا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کے لیے توبہ و استغفار کی ضرورت و حاجت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اطاعت و فرماں برداری پر راضی و خوش ہوکر بیٹھ جانا نفس کی حماقتوں میں سے ہے، اہلِ عزائم و بابصیرت لوگ اطاعت و فرمانبرداری کے کاموں کے بعد بڑی سختی و شدت سے توبہ و استغفار کرتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عمل و اطاعت میں تقصیر ہوجانا ضروری امر ہے اور اللہ تعالیٰ کے جلال و کبریائی کے لائق ہم اطاعت کر بھی نہیں سکتے۔ اگر حکم نہ ہوتا تو ایسی عبودیت و بندگی کوئی نہ کرتا اور نہ آقا ہی کے لیے اسے کوئی پسند کرتا۔‘‘[1] الوداع: ہم ماہِ رمضان المبارک کو تو الوداع کہہ رہے ہیں، مگر کوئی مومن اطاعت و فرمانبرداری اور عبادت و بندگی کو تو کبھی الوداع نہیں کہتا، بلکہ وہ اپنے رب کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرتا ہے اور اس کا اپنے خالق سے ناتا اور قوی ہوجاتا ہے، تاکہ خیر و بھلائی کا چشمہ ابلتا رہے، البتہ وہ لوگ جو اللہ کے عہد و پیمان کو توڑتے ہیں اور عید کے گزرتے ہی مساجد سے رخصت لے لیتے ہیں، وہ بڑے ہی برے لوگ ہیں جو اللہ کو صرف ماہِ رمضان ہی میں پہچانتے اور رمضان کے گزرتے ہی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتے ہیں، حالانکہ عبادت تو ہر طرح کی تاحیات اللہ تعالیٰ کے لیے ہونی چاہیے، جیساکہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ [الأنعام: ۱۶۲]
[1] مدارج السالکین (۱/ ۱۷۵)