کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 46
مسلسل ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حقیقت میں مصیبت تو صرف وہی ہے، جو دین کو اختیار کرنے کی وجہ سے انسان پر ٹوٹتی ہے، رہے وہ مصائب تو وہ بھی انسان پر آکر درجات کی بلندی اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بنتے ہیں اور ہر وہ نعمت جو اﷲ کے قرب کا سبب نہیں بنتی وہ آزمایش ہے۔ اصل مصیبت زدہ وہ شخص ہے، جو ثواب سے محروم کر دیا گیا۔ دنیا کی کسی چیز کی محرومی پر افسوس نہ کرو، دنیا کی آفتیں نوعمر اور نو وارد ہیں، اس کے افسانے رنج و ملال کا باعث ہیں اور اس کے حوادث غم و فکر کا باعث ہیں۔ لوگوں کو دنیا میں ان کے عزائم اور ارادوں کے مطابق ہی عذاب دیا جاتا ہے، دنیا پر خوش اور راضی رہنے والا ہی حقیقت میں وہ شخص ہے، جس پر افسوس کیا گیا ہے۔ دنیا کے آلام اس کی لذتوں سے پیدا ہوتے ہیں اور اس کے غم اس کی خوشیوں کے پیدا کردہ ہیں۔ سیدنا ابو الدردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’من ھوان الدنیا علی اللّٰه أنہ لا یعصٰی إلا فیھا، ولا ینال ما عندہ إلا بترکھا‘‘[1] ’’دنیا کے اﷲ کے ہاں حقیر و ذلیل ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی دنیا کے لیے نافرمانی کی جاتی ہے اور اپنے ہاں (جنت) کی نعمتیں تو وہ صرف دنیا کے ترک کر دینے پر ہی عطا کرتا ہے؟‘‘ لہٰذا تم اپنے آپ کو اس چیز میں مشغول کرو، جو چیز تمھارے لیے دنیا کی کسی کھوئی ہوئی چیز کے حصول سے زیادہ نفع مند ہے۔ بگاڑ اور خرابی کی اصلاح کرو، لغزش کی معذرت کرو اور رب الارباب کے در پر جھک جاؤ، بہت جلد تم دیکھو گے کہ تمھاری آزمایش ٹل گئی ہے اور اگر سختی کی مصیبت نہ ہوتی تو انسان کبھی راحت کی وسعت حاصل نہ کر پاتا۔ جو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، اس سے بالکل مایوس اور کنارہ کش ہوجاؤ، تم ان سب سے زیادہ غنی اور بے پروا بن جاؤ گے۔ مایوسی اختیار نہ کرو، ورنہ تم رسوا ہوجاؤ گے اور بے یار و مددگار چھوڑ دیے جاؤ گے، اپنے اوپر اﷲ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کو یاد کرو، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ اور حتمی قضا و قدر پر راضی ہوکر اپنے غم کو دور کرو، رات چاہے کتنی ہی لمبی ہو، آخر تو صبح کا سپیدہ طلوع ہو کر رہتا ہے، غم کی انتہا خوشی اور کشادگی کی ابتدا
[1] تفسیر القطربي (۶/ ۴۱۵)