کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 447
جہاں تک نظر جا سکتی ہے وہ وہاں تک پہنچ چکے ہیں، یہاں تک کہ اب ان کا شمار کرنا اور گننا بھی مشکل ہوگیا ہے، گناہ اگرچہ اتنے ہوگئے ہیں پھر بھی فوراً توبہ کرو۔ اس میں ذرا بھی تردد و تامل نہ کرو، کیوں کہ اللہ توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا اور رجوع کرنے والے کی لرزشیں معاف کرتا ہے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: (( یَا ابْنَ آدَمَ! إِنَّکَ مَا دَعَوْتَنِيْ وَرَجَوْتَنِيْ غَفَرْتُ لَکَ عَلٰی مَا کَانَ مِنْکَ وَلَا أُبَالِيْ، یَا ابْنَ آدَمَ! لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوْبُکَ عَنَانَ السَّمَآئِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِيْ غَفَرْتُ لَکَ، یَا ابْنَ آدَمَ! لَوْ أَتَیْتَنِيْ بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِیْتَنِيْ لَاتُشْرِکُ بِيْ شَیْئًا لَأَتَیْتُکَ بِقُرَابِھَا مَغْفِرَۃً )) [1] ’’اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: اے ابنِ آدم! تو جب بھی مجھے پکارے اور مجھ سے امید لگائے، میں تمھیں بخش دوں گا، تیرے گناہ چاہے جتنے بھی ہوں گے، مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔ اے ابنِ آدم! اگر تیرے گناہ کی کثرت کا یہ عالم ہو کہ وہ آسمان تک پہنچ گئے، پھر تم نے مجھ سے بخشش طلب کی تو میں تجھے بخش دوں گا۔ اے ابن آدم! تو اگر میرے پاس زمین کی پہنائیوں کے برابر بھی گناہ لے کر آیا مگر تونے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہوگا، تو میں تمھیں زمین کی پہنائیوں کے برابر مغفرت سے نواز دوں گا۔‘‘ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی ہے: (( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَبْسُطُ یَدَہٗ بِاللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِيْئُ النَّھَارِ، وَیَبْسُطُ یَدَہٗ بِالنَّھَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ اللَّیْلِ …… )) [2] ’’اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات کو برائی کرنے والا تائب ہوجائے اور یہ سلسلہ اس دن تک جاری رہے گا جب تک مغرب سے سورج طلوع نہ ہو (قیامت نہ آ جائے)۔‘‘ مسلمانو! اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے، اپنے گناہ کا اقرار و اعتراف کرنے، گناہ کو یکسر ترک کر دینے اور آیندہ یہ گناہ نہ کرنے کا عزم بالجزم کرنے سے اللہ گناہ کو بخش دیتا ہے، اور توبہ کرنے والا
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۵۴۰) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۷۵۹)