کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 42
مصائب وہ آزمایشیں ہیں، جن کے ذریعے سچا جھوٹے سے ممتاز ہوجاتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْن﴾ [العنکبوت: ۲] ’’کیا لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ وہ اسی چیز پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمایش نہ کی جائے گی۔‘‘ انسانی نفس آزمایش کے بعد ہی پاک و صاف ہوتے ہیں اور آزمایشیں ہی ’’مردوں‘‘ کو نکھارتی اور نمایاں کرتی ہیں۔ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’من أراد أن تدوم لہ السلامۃ والعافیۃ من غیر بلاء فما عرف التکلیف ولا أدرک التسلیم‘‘[1] ’’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی ابتلا و آزمایش کے بغیر اسے ہمیشہ سلامتی اور عافیت حاصل رہے تو اس نے تکلیف کو نہیں پہچانا اور نہ وہ تسلیم کے مفہوم کو سمجھ سکا۔‘‘ ہر نفس، خواہ وہ مومن ہو یا کافر، تکلیف و آزمایش میں ضرور مبتلا ہوتا ہے۔ زندگی مشقتوں اور خطروں سے بھرپور ہے، لہٰذا کوئی شخص یہ طمع اور توقع نہ رکھے کہ وہ سختیوں اور تکلیفوں سے بچ جائے گا، بلکہ انسانی زندگی میں ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ نعمتیں چھن رہی ہیں اور سختیاں ڈیرے ڈال رہی ہیں۔ آدم علیہ السلام کو دیکھو! کبھی وہ وقت تھا کہ فرشتوں نے انھیں سجدہ کیا اور کچھ ہی مدت کے بعد انھیں جنت سے نکال دیا گیا۔ ابتلا و آزمایش مقاصد کے برعکس اور آرزوؤں کے برخلاف ہوتی ہے، ہر ایک کو اس کے کڑوے گھونٹ حلق سے اتارنے ہی ہوں گے مگر کسی کو کم اور کسی کو زیادہ، مومن کو مہذب بنانے کے لیے آزمایش میں مبتلا کیا جاتا ہے، نہ کہ اسے عذاب دینے کے لیے، خوشحالیوں میں آزمایشیں ہیں اور تنگ حالیوں میں سختیاں ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ وَ بَلَوْنٰھُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ [الأعراف: ۱۶۸]
[1] صید الخاطر (ص: ۲۸۹)