کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 414
﴿ وَالْعَصْرِ . اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ . اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ . ﴾ [العصر: ۱ تا ۳] ’’قسم ہے زمانے کی، بیشک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کا م کیے اور ایک دوسرے کو ایمان و عملِ صالح کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘ قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ ایک تابعی ہیں، انھوں نے فتنوں کو دیکھا اور ان میں سے گزرنے کے بعد انھوں نے اپنے تجربات کے نتائج امت کے سامنے رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’اﷲ کی قسم! ہم نے ان قوموں کو بھی دیکھا ہے، جو فتنوں میں جلد گھس جانے والی تھیں اور ان لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو اﷲ تعالیٰ کے خوف و ہیبت کے سبب ان میں گھسنے اور جھانکنے سے باز رہے، جب فتنوں کے بادل چھٹے تو ہم نے دیکھا کہ جو لوگ فتنوں میں جھانکنے سے بچ گئے وہی زیادہ خوش دل، ٹھنڈے سینوں والے اور بدنامی سے بچنے والے تھے، جبکہ دوسرے ان کے برعکس تھے۔ اﷲ تعالیٰ کی قسم ہے! اگر فتنوں کے خاتمے پر لوگوں کو جن باتوں کا علم ہوا، وہ انہیں فتنوں کے بپا ہونے سے پہلے حاصل ہو جاتا تو ان لوگوں میں ایک پوری نسل عقل مند نکلتی اور ان فتنوں میں دخل اندازی نہ کرتی۔‘‘[1] چند دنوں کے بعد مومن ماہِ رمضان کی آمد کی بشارتیں پائیں گے، جس میں اﷲ تعالیٰ جنت کے دروازے کھول دیتا ہے اور جہنم کے دروازے بند کر دیتا ہے، وہ ماہِ مبارک جس کے فضائل و برکات اور فوائد و ثمرات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ امتِ اسلامیہ موجودہ بحرانوں اور فتنوں کے زمانے میں ایسے خیرات و برکات کے موسم کی سخت ضرورت مند ہے، اس موسم سے گزر کر روشن دل، روشن بصیرت اور قوی العزم ہو جائیں، ان کے ارادوں سے کمزوری ختم ہو چکی ہو، ان کے دلوں سے حیر ت و استعجاب اور خوف و خطرات مٹ چکے ہوں اور ان کے دل خوب قوی ہو جائیں۔ رمضان المبارک کا استقبال خوش دلی، صاف نفس، تطہیرِ اموال اور مشاغلِ زندگی سے فراغت کے ساتھ کرنا چاہیے۔ اس ماہ میں سب سے اہم کام یہ ہونا چاہیے کہ دلوں کی اصلاح ہو جائے، کیونکہ وہ دل جو
[1] حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصفھاني (۲/ ۳۳۷)