کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 412
ان سے نجات پا جاتا ہے، اس بات کی وضاحت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ا رشاد سے بھی ہوتی ہے: (( بَادِرُوْا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا کَقِطَعِ اللَّیْلِ مُظْلِمًا، یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَّیُمْسِيْ کَافِرًا، أَوْ یُمْسِيْ مُؤْمِنًا وَّ یُصْبِحُ کَافِرًا، یَبِیْعُ دِیْنَہٗ بَعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا )) [1] ’’فتنے بپا ہونے سے پہلے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، وہ فتنے رات کے تاریک ٹکڑوں کی طرح ہوں گے، جن میں ایک شخص صبح مومن ہوگا، مگر رات ہو نے تک وہ کافر ہو جائے گا اور ایک آدمی رات کو مومن ہو گا، لیکن دن چڑھنے تک وہ کافر ہو جائے گا، وہ اپنے دین کو دنیا کی خاطر بیچ ڈالے گا۔‘‘ صبر و تقویٰ: کفار کی مکاریوں کا مقابلہ کرنے اور فتنوں سے تحفظ پانے کے لیے قرآن کریم نے صبر و تقویٰ کی تلقین کی ہے، چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ﴾ [آل عمران: ۱۸۶] ’’تمھیں یقینا تمھارے مالوں اور جانوں میں آزمایا جائے گا اور تم یقینا ان لوگوں کی جانب سے جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکین کی جانب سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو گے اور اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہو گے تو بے شک یہ ہمت و عزیمت کا کام ہے۔‘‘ اخلاص و للہیت: حضرت یوسف علیہ السلام کو اﷲ تعالی نے فتنوں سے اخلاص کے سبب نجات دی تھی، چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓئَ وَ الْفَحْشَآئَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ﴾ [یوسف: ۲۴] ’’ایسا اس لیے ہوا تاکہ ہم ان سے برائی و بدکاری کو دور کر دیں، بے شک وہ ہمارے ان بندوں میں سے تھے، جو مخلص اور برائیوں سے پاک کر دیے گئے تھے۔‘‘ اہلِ کہف کو اﷲ تعالیٰ نے نجات دی اور ان کو محفوظ رکھا، کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۱۸)