کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 408
ہے، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ﴾ [العنکبوت: ۲] ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ا نکے صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئے، انھیں چھوڑ دیا جائے گا اور وہ آزمایش ( فتنوں ) میں نہیں ڈالے جائیں گے؟‘‘ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے مقدر میں بڑی بڑی حکمتوں کے پیش نظر یہ فتنے لکھ رکھے ہیں: 1۔ان حکمتوں میں سے ایک اہم حکمت یہ ہے کہ ان کے ذریعے اﷲ تعالی اپنے بندوں میں مخلص لوگوں کا گروہ الگ کر لیتا ہے، کیونکہ دعوت کے جھنڈے کے نیچے تو ہر سچا، جھوٹا، مخلص اور خود غرض جمع ہو جاتا ہے، جبکہ فتنوں یا آزمایشوں سے لوگوں کے حقائق کا انکشاف ہو جاتا ہے، جسے حق و باطل سے کوئی غرض نہ ہو، بلکہ وہ صرف اپنے اغراض و مقاصد اور ذاتی منفعت ہی کو سب کچھ سمجھتا ہو تو وہ درہم و دینار کا بندہ اور دولت کا پجاری ہے، ایسے لوگ اصول ومبادیات اور امانتوں اور ذمے داریوں کے امین نہیں ہو سکتے۔ آزمایشیں اور فتنے ایسے لوگوں کے دلوں کا میل لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں، تاکہ امت ان کی اصلی حالت دیکھ لے اور انھیں اپنے اندر سے نکال پھینکے۔ 2۔یہ صحیح ہے کہ فتنوں میں تکالیف و مشکلات تو ہوتی ہیں، لیکن ان میں بعض لوگوں میں مردانگی بڑھ جاتی ہے، ان کی ہمت و جراَت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ ضعف و کمزوری کے اسباب کا ادراک کر لیتے ہیں، جس سے ان میں پہلے سے بہت اعلی کردار ادا کرنے کے لیے مزید قوت آجاتی ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۲۱۶] ’’قریب ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ (درحقیقت) تمھارے لیے بہتر ہو، اور قریب ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو، جبکہ (حقیقت میں) وہ تمھارے حق میں بری ہو، اﷲ تعالیٰ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے ہو۔‘‘ 3۔کتنے لوگ ہو تے ہیں جن کے بارے میں گمان کیا جا رہا ہو تاہے کہ وہ آزمایش میں ثابت