کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 377
تمام ظاہری اسباب جواب دے جائیں تو آسمان کا دروازہ کھٹکھٹاؤ اور اس جبار سے درخواست کرو جو مظلوموں کا مدد گار اور کمزوروں کا ملجا و ماویٰ ہے۔ اس نے مظلوم و بے کس لوگوں کی مدد کا وعدہ کر رکھا ہے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ پر کسی نے ظلماً کچھ الزامات لگا دیے، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے اس کے خلاف بد دعا کرتے ہوئے اﷲ سے عرض کی: ’’اے اﷲ! اسے اندھا کر دے، اس کی عمر لمبی کر دے اور اسے فتنوں میں مبتلا کر دے۔‘‘ راویِ حدیث کہتے ہیں: ’’اس بد دعا کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ شخص اندھا ہو گیا، ضعیف العمری اور کبرِ سنّی کی وجہ سے اس کی بھنویں اس کی آنکھوں پر گر گئیں اور وہ یہ کہتا پھرتا تھا کہ میں وہ بد نصیب ہوں، جسے سعد کی بد دعا لگ گئی ہے۔‘‘[1] امام ابن عقیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مخلص اور مظلوم کی دعا فوراً قبول ہو جاتی ہے۔‘‘ بربادی ہے اس کے لیے جس کی طرف مظلوموں کے تیروں نے رخ کر لیا اور جس کے خلاف کمزوروں کے ہاتھ بد دعا کے لیے اٹھ گئے۔ اے مصیبت زدہ انسان! اﷲ کی قضا و قدر پر صبر کرو، کیوں کہ صبر کے ساتھ ہی فتح و نصرت ہے، تکلیف کے ساتھ ہی کشایش اور تنگی کے ساتھ ہی آسانی ہے۔ بلاے محض تو وہ چیز ہے جو تمھیں اﷲ سے دور کر دے، البتہ وہ چیز جو تمھیں اس کے سامنے کھڑا کر دے، اس میں تو تیرا کمال و عزت ہے، جب آسانی آجائے، کشایش مل جائے اور غم و پریشانیاں چھٹ جائیں، تو اﷲ کا شکر ادا کریں کہ وہ ان بادلوں کو ختم کرنے والا ہے۔ اﷲ کی حمد و ثنا ہی میں اس کا شکر بھی ہے اور یہی از دیارِ نعمت کا باعث بھی ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ﴾ [المؤمن: ۶۰] ’’اور تمھارے رب نے کہا ہے: تم مجھے پکارو میں تمھاری (دعائیں) قبول کرتا ہوں،
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۷۵۵)