کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 359
’’اللہ (کے اوامر و احکام) کی حفاظت کرو، وہ تمھاری حفاظت کرے گا۔ اس کے احکام کی حفاظت کرو تم اسے ہمیشہ اپنے ساتھ پاؤ گے۔ جب سوال کرو تو اللہ سے کرو اور جب مدد مانگو تو صرف اللہ ہی سے مدد مانگو۔ اس بات کا یقین کر لو کہ اگر ساری دنیا تمھیں کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو وہ تمھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے، سوائے اس کے جو اللہ نے لکھ رکھا ہے، اور اگر پوری دنیا والے تمھیں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے، سوائے اس کے جو اللہ نے لکھ رکھا ہے۔ قلمیں اٹھائی جاچکی ہیں اور (تقدیر کے) صحیفوں کی سیاہی خشک ہو چکی ہے۔ ‘‘ 7۔ایمانِ صحیح بندے کو یقین و اعتماد اور صبر و اطمینان کی زبردست قوت سے مالا مال کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ تکبر نہیں کرتا، بلکہ اللہ کی حمد و ثنا اور شکر کا رویہ اپناتا ہے۔ اسے مشکلات و مصائب سے دو چار ہونا پڑے تو وہ نا امید نہیں ہوتا اور نہ ٹوٹتا ہے، اور نہ حزن و غم اور پریشانیاں اس کے دل پر اثر انداز ہوتی ہیں، بلکہ وہ صبر کا دامن تھامے رہتا ہے اور تقدیر پر رضامندی کا اظہار کرتا اور عزم و ہمت سے رہتا ہے، کیونکہ وہ اپنے ایمانی عقیدے کی بدولت دائمی عطا، واضح رویت، قوتِ ادراک اور بصیرت کے بل بوتے پر فتنوں اورحادثاتِ زمانہ کا مقابلہ کرنے کی قوت و طاقت پا لیتا ہے جن کے تند و تیز جھکڑ اس کے پائے استقلال میں لرزش لاپاتے ہیں نہ مصائب اس کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ کوئی چیز کتنی ہی دل کش کیوں نہ ہو یا کوئی فتنہ کتنا ہی خوفناک کیوں نہ ہو اسے کوئی چیز اس کے ایمان اور اس کے رب کی رضا کے حصول کی راہ سے نہیں ہٹا سکتی، بلکہ یہ سب چیزیں اس کے صدق و صفا، اخلاص و وفا اور صبر و ثبات میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( عَجَباً لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَہٗ کُلُّہُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذٰلِکَ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْراً لَہُ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ )) [1] ’’مومن کے معاملے پر تعجب ہے۔ اس کا معاملہ ہر شکل میں اس کے لیے خیر و بھلائی کا باعث ہوتا ہے اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہے۔ اگر اسے کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۹۹۹)