کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 353
گراوٹ کا معاملہ قبول کر لیتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو موت و حیات اور روزی روٹی کے معاملات انسان کے ہاتھ میں دیے ہی نہیں بلکہ یہ سب کچھ اس نے اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے، لیکن لوگ ذلت کے خوف سے ذلت میں پڑے ہوئے ہیں اور فقر و تنگدستی کے خوف کی بنا پر فقر و فاقے میں مبتلا ہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ اَمَّنْ ھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ جُندٌ لَّکُمْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اِِنِ الْکٰفِرُوْنَ اِِلَّا فِیْ غُرُوْرٍ . اَمَّنْ ھٰذَا الَّذِیْ یَرْزُقُکُمْ اِِنْ اَمْسَکَ رِزْقَہٗ بَلْ لَّجُّوْا فِیْ عُتُوٍّ وَّنُفُوْرٍ﴾ [الملک: ۲۰، ۲۱] ’’سوائے اللہ کے تمھارا وہ کونسا لشکر ہے جو تمھاری مدد کر سکے، کافر تو سراسر دھوکے ہی میں ہیں، اگر اللہ تعالیٰ اپنی روزی روک لے تو بتاؤ کون ہے، جو پھر تمھیں روزی عطا کر سکے؟ بلکہ کافر تو سرکشی اور بدکنے پر اڑ گئے ہیں۔‘‘ (3) مومن کی عزت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ ہر لالچی کے لیے تر نوالہ بنے اور نہ ہر حملہ آور کا نشانہ بننے پائے، نہ اپنے دین کی کسی بھی چیز سے دست بردار ہو اور نہ ہی کسی کو اپنی عزت و شرف سے کھیلنے کا موقع دے۔ اپنے دین کی کسی چیز سے دست برداری، گمراہی اور اللہ کی راہ سے انحراف کا پیش خیمہ ہے اور عزت و کرامت سے کسی کو کھیلنے کا موقع دینا ذلت و رسوائی اور غیر اللہ کی عبودیت و بندگی کے مترادف ہے۔ (4) عزتِ نفس ایک مسلمان عورت کو یہ مقام عطا کر دیتی ہے کہ وہ اپنے حجاب و پردہ اور لباس و پوشاک کو اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتی ہے، اپنے عقیدہ و آداب کی بنا پر وہ بڑے فخر و اعتزاز سے سر اٹھا کر چلتی ہے اور احساسِ کمتری میں مبتلا نہیں ہوتی۔ (5) عزتِ نفس کا مالک انسان اندھی تقلید اور کورانہ پیروی سے منزہ و مبرا ہوتا ہے اور اسے اپنی رائے، فکر اور منہج و طریقے پر ناز ہوتا ہے۔ تمام ترعزت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، اس کے سوا کسی کے پاس اس میں سے کچھ بھی نہیں ہے، جسے عزت چاہیے اسے اس کے اصل سرچشمہ و منہج سے عزت طلب کرنی چاہیے، جس کے سوا اس کے حصول کا دوسرا کوئی ذریعہ نہیں ہے، تو اسے اس کا مطلوب مل جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت کا مالک ہے اور تمام عزت اسی کے ہاتھ میں ہے۔