کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 351
آج کی ضرورت: امتِ اسلامیہ کے لیے سب سے خطرناک بیماری نفسیاتی ہار اور ضُعفِ ہمت ہے جو دلوں میں انحطاط، رجعتِ قہقریٰ اور پسماندگی پیدا کر دیتی ہے۔ آج امتِ اسلامیہ نفسیاتی ہار کے مرحلے سے گزر رہی ہے اور آج اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے افراد کے دلوں میں عزت کا معنی و مفہوم بیدار کیا جائے اور ان کی شخصیات میں عمق و گہرائی پیدا کی جائے، ان کی سوچ و فکر کو صیقل کیا جائے اور اس عزت کے ساتھ ان کے ذکر کو بلند کیا جائے اور پھر اسی کے بل بوتے پر انھیں بلندیوں، سرداریوں اور اونچائیوں سے روشناس کرایا جائے۔ لمحۂ فکریہ: ایک مومن اللہ کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لینے کے بعد اللہ کی حقیقی عبودیت و بندگی سے حاصل شدہ روحانی قوت کی وجہ سے اپنے اندر پورے عالم پر غلبہ پالینے کا ایک پاکیزہ احساس اپنے اندر پاتا ہے، کیونکہ وہ اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ حقیقی معبود، خالق، رازق، نقصان پہنچانے والا، نفع بخشنے والا، زندہ کرنے والا، مارنے والا اور پورے جہاں کا بلا شرکتِ غیرے وہ اکیلا مالک ہے۔ اس ایمان کے پیدا ہو جانے کے بعد پھر وہ کسی چیز سے ڈرتا ہے، کسی شخص سے گھبراتا ہے اور نہ ہی بڑے بڑے حادثات اس کے دل پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ وہ عزت و کرامت کے بدلے میں کوئی بھی سودا کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، در اصل اس سب کچھ کا مدبر اور کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، اللہ کے سوا یا اللہ کے ساتھ دوسرا کوئی بھی اس کائنات کی کسی بھی چیز کا مالک نہیں ہے، تو پھر کسی غیر اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور ذلیل ہونے کا کیا معنی؟ اپنے ہی جیسے دوسرے عاجز انسان کے لیے اپنی عزت و کرامت سے کیوں دست بردار ہو ، اگرچہ اس کے ہاتھ میں ظاہری قوت کے تمام سر چشمے ہی کیوں نہ ہوں؟ وہ اپنے ہی جیسے کسی ضعیف بندۂ بشر کے سامنے اپنی عزت و کرامت سے دست کش کیوں ہو؟ وہ ضعیف وعاجز بھی ہر اس چیز کا محتاج ہے جو اللہ کے ہاتھ میں ہے کیونکہ ہمیشہ زندہ و قائم اور اس جہان کو چلانے والا تو صرف اللہ ہی ہے اور جو کوئی بھی اس کے سوا ہے وہ زوال پذیر ہے۔