کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 349
ابو سفیان کی زبان درازی: غزوۂ احد کے بعد جب ابو سفیان نے واپس لوٹنا چاہا تو پہاڑ پر کھڑے ہو کر اس نے بلند آواز سے کہا: جنگ ایک مقابلہ ہے، آج کا دن غزوۂ بدر کے بدلے کا دن ہو گیا ہے، ہُبل زندہ باد۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ اٹھو اور اسے جواب دو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اعلیٰ و اجل تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس کے سوا یہ مقام کسی کو حاصل نہیں، ہمارے شہدا جنت میں جائیں گے اور تمھارے مقتولین کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘[1] مشرک باپ اور بسترِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم : امام ابنِ اسحاق لکھتے ہیں کہ ابو سفیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ میں آئے اور اپنی بیٹی ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھنے کا ارادہ کیا تو حضرت امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بستر لپیٹ لیا۔ ابو سفیان نے کہا: بیٹی! پتا نہیں یہ بستر میرے لائق نہیں یا مجھے اس بستر پر بیٹھنے کے قابل نہیں سمجھتی ہو؟ انھوں نے جواب دیا: یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا (پاک) بستر ہے اور آپ مشرک و نجس ہیں، مجھے یہ پسند نہیں کہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھیں، تو اس نے کہا: بیٹی! میرے بعد لگتا ہے کہ تمھیں کچھ ہو گیا ہے۔[2] ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ اور رستم کا عبرتناک واقعہ: حضرت ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ اور رستم کا واقعہ قوتِ ایمانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ معرکہ قادسیہ کے موقع پر رستم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کہ اپنا قاصد بھیجیں جس کے ساتھ مَیں جنگ شروع کرنے سے قبل مذاکرات کر سکوں۔ انھوں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا، جنھوں نے رستم سے کہا: ’’ہمیں دنیا کی کوئی طلب نہیں ہے، ہمارا مطلوب و مقصود تو صرف آخرت کی خوشگوار زندگی ہے۔‘‘ ان کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے دوسرے قاصد کے طور پر ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ کو بھیجا، وہ رستم کے پاس اس وقت پہنچے، جب اس کے دربار کو سونے اور ریشمی کپڑے سے خوب سجایا جا چکا تھا اور بڑے قیمتی لعل و یاقوت ظاہر کر رکھے تھے۔ رستم سونے کے تخت پر بیٹھا تھا، ربعی رضی اللہ عنہ معمولی سا
[1] مسند أحمد (۱/ ۲۸۷) [2] الطبقات الکبریٰ لابن سعد (۸/ ۱۰۰)