کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 346
دنیا و آخرت کا مالک ہے اور تمام تر عزت اسی کے لیے ہے۔‘‘[1] نیز ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ قُلِ الّٰلھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ﴾ [آل عمران: ۲۶] ’’آپ کہہ دیجیے اے اللہ! اے تمام جہانوں کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقمطراز ہیں: ’’ تو ہی دینے والا ہے اور تو ہی روکنے والا ہے اور تو ہی وہ ذات ہے کہ جو چاہے ہو جائے اور جو نہ چاہے وہ نہ ہو پائے۔‘‘[2] اس سے اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ حقیقی عزت صرف اللہ کی اطاعت اور اس کے رسولوں کی اتباع و پیروی کرنے میں ہے، جبکہ ذلت اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کرنے میں ہے۔ اگر گناہ گاروں کی بظاہر کوئی عزت محسوس بھی ہوتی ہے اور دنیا میں ان کا کچھ بھی مقام لگتا ہے تو درحقیقت وہ ذلت و رسوائی سے بھرا ہوتا ہے، کبھی کبھی وہ شخص اس حقیقی ذلت و رسوائی کو محسوس بھی کر لیتا ہے اور کبھی کبھی اس پر دولت کا نشہ ایسا چھا جاتا ہے کہ وہ اس ذلت کو محسوس نہیں کر سکتا جیسا کہ گناہ گاروں کے بارے میں امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’ان کے نیچے اگر ترکی گھوڑے آوازے نکال رہے ہوں یا وہ خچروں پر سوار ہوں، پھر بھی گناہوں کی ذلت ان پر چھائی ہوتی ہے اور اللہ نے گناہ گاروں کو ذلیل کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
[1] تفسیر ابن کثیر (۳/ ۷۲۳) [2] تفسیر ابن کثیر (۱/ ۴۷۵)