کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 315
ہو کہ اس سائل کا ہاتھ اس دن میرے گریبان میں ہو جس دن کے کیا کہنے؟‘‘[1] اہلِ مغرب (مراکش) والوں نے ایک آدمی کو امام صاحب سے مسئلہ دریافت کرنے کا کہا، اس نے امام صاحب سے پوچھا تو امام صاحب نے جواب دیا: ’’میں یہ مسئلہ نہیں جانتا اور ہمیں ہمارے ملک میں یہ مسئلہ کبھی پیش نہیں آیا اور نہ ہم نے اپنے مشائخ و اساتذہ میں سے کسی کو اس مسئلے پر گفتگو کرتے سنا ہے، البتہ آپ پھر دوبارہ آنا۔‘‘ اگلے دن وہ آدمی لوٹ کر آیا تو اسے امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: ’’آپ نے مجھ سے ایک سوال پوچھا تھا اور میں اس کا جواب نہیں جانتا ہوں۔‘‘ اس آدمی نے کہا: اے ابو عبداللہ! میں اپنے پیچھے ان لوگوں کو چھوڑ کر آیا ہوں، جن کا کہنا ہے کہ اس روے زمین پر آپ سے بڑا عالم کوئی نہیں، امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’انھوں نے ایسا کہہ کر اچھا نہیں کیا۔‘‘[2] کسی نے امام مالک رحمہ اللہ سے ایک مسئلہ پوچھا تو انھوں نے اس معاملے میں فکر و نظر کرنے اور مطالعہ کرنے کے لیے وقت مانگا، سائل نے کہا کہ یہ تو معمولی سا مسئلہ ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’علم میں کوئی چیز معمولی نہیں ہوتی، کیا آپ نے اللہ کا یہ ارشاد نہیں سنا: ﴿ اِِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا﴾ [المزمل: ۵] ’’یقینا عنقریب ہم آپ پر بھاری بات نازل کریں گے۔‘‘ بعض لوگوں نے کہا ہے: ’’اللہ کی قسم! جب امام مالک رحمہ اللہ سے مسئلہ پوچھا جاتا تو ان کی حالت ایسی ہو جاتی جیسے جنت و جہنم کے ما بین کھڑے ہوں۔‘‘[3] امام مالک رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’میں نے اپنے ملک میں کتنے ہی اہلِ علم و فضل ایسے پائے ہیں کہ ان سے اگر کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو ان کی حالت ایسے ہو جاتی جیسے ان پر موت کا عالم طاری ہو گیا ہو۔‘‘[4]
[1] الدیباج المذھب (۱/ ۲۳) [2] تقدمۃ الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم (ص: ۱۸) جامع بیان العلم (۲/ ۸۳۸) [3] إعلام الموقعین (۴/ ۲۱۸) [4] الدیباج المذھب لابن فرحون المالکي (۱/ ۲۳)