کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 301
ہیں اور اپنی موت کے انتظار میں ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔‘‘[1] زمانے کی گردش، شب و روز کی آمد و رفت اور مختلف مواقع کا آنا اور جانا ہمارے لیے محاسبۂ نفس کا سبب ہونا چاہیے، ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے نفس و ضمیر کے ساتھ چند لمحات کے لیے خلوت گزیں ہو اور اپنا محاسبہ کرے۔ کل تمام انسانوں کو اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونا اور اپنے کیے کا جواب دینا ہے۔ انبیا و رسل علیہم السلام نے اپنے منصب اور امتوں نے اپنے عمل کا جواب دہ ہونا ہے، چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَ لَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ﴾ [الأعراف: ۶] ’’ہم ان سے بھی ضرور باز پرس کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے تھے اور خود رسولوں سے بھی جواب طلب کریں گے۔‘‘ اہلِ صدق سے بھی سوال ہوگا، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ لِیَسْئَلَ الصّٰدِقِیْنَ عَنْ صِدْقِھِمْ﴾ [الأحزاب: ۸] ’’ صادقین سے ان کے صدق کے بارے میں وہ سوال کرے گا۔‘‘ جن پر اللہ نے اپنی نعمتیں نازل کیں، ان سے بھی سوال ہوگا اور ان نعمتوں کا ان سے حساب لیا جائے گا، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ﴾ [التکاثر: ۸] ’’پھر قیامت کے دن تم سے نعمتوں کا بھی ضرور حساب لیا جائے گا۔‘‘ زندگی کا اختتام: دن گزرتے جاتے ہیں اور عمریں ختم ہوتی جاتی ہیں۔ شب و روز کی گردش دور والے اوقات کو قریب لا رہی ہے اور موعود دنوں کو کھینچے لا رہی ہے۔ اس گردش کی تیزی سمجھدار آدمی کو یہ یاد دلاتی ہے کہ عمر بھی اتنی ہی تیزی سے ختم ہو رہی ہے اور اسی تیزی کے ساتھ موت قریب آرہی ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’سختی کے دن آنے سے پہلے پہلے کشایش و آسانی کے دنوں میں اپنے نفس کا محاسبہ کرلو۔ جس نے کشایش کے دنوں میں اپنے نفس کا محاسبہ کیا، اس کا معاملہ رضا و خوشی کو
[1] مصنف ابن أبي شیبۃ (۷/ ۱۴۵)