کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 295
میں گہرا عمل دخل رکھتے ہیں اور ان ہی سے بنی نوع انسان کی فوز و فلاح اور سعادت و خوشحالی وابستہ ہے۔ علم کے فوائد و ثمرات کے اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا﴾ [الفاطر: ۲۸] ’’اللہ کے بندوں میں سے صحیح معنوں میں علما ہی ڈرتے ہیں۔‘‘ اسلام تعلیم کو اس نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے، جس کے ذریعے ایک نیک معاشرہ تشکیل پاتا ہے جو مکمل طور پر منہجِ ربانی کا پابند ہوتا ہے اور شریعت کے طے کردہ معیارِ قبول و رد پر عمل پیرا ہوتا ہے، تاکہ انسانی زندگی پوری طرح اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی عملی تصویر بن جائے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ﴿ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ . لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ﴾ [الأنعام: ۱۶۲، ۱۶۳] ’’کہہ دو کہ میری نماز و قربانی اور حیات و ممات سب اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ اسلامی اصول و قواعد پر مشتمل تعلیم و تربیت اللہ کے حکم سے ایسی نسلوں کے پروان چڑھانے کی ضامن ہے، جن کی سوچ و فکر اور احساسات تک سب اپنے خالق و مالک کی ملکیت ہوتے ہیں، ان کی ثقافت، کلچر اور تصور سب دین کے تابع ہوتے ہیں اور جن کا قلب و قالب یا جسم و جان سب کے سب منہاجِ اسلام اور حقائقِ ایمان کے صحیح فہم و ادراک کے عین مطابق ہوتے ہیں، جن کے ذریعے وہ ابھرتی ہوئی نسل کے دلوں میں اس دین کے حوالے سے عزت پانے کی روح پھونکتے ہیں، تاکہ ان کی عقول و نظریات ہر اس چیز کی طرف لگے رہیں، جو ان کے لیے دنیا و دین ہر دو میں مفید و نفع بخش ہو ۔ تعلیم و تربیت نوجوان نسل کے ذہن میں اسلام کے اعلیٰ اصول و مبادیات اور عمدہ اخلاق و کردار کے بیج بوتی اور ان کی آبیاری کرتی ہے، تاکہ وہ اپنی ساری زندگی میں ان اصول و اخلاق کو اپنا کر انھیں کو اپنا کردار و عمل بنا لیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (( إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلاَقِ )) [1]
[1] مسند أحمد (۲/ ۳۸۱)