کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 291
لینے والے جالیتے ہیں ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے، انسان منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا، مگر اس کے پاس نگہبان تیار ہے۔‘‘ اللہ والو! غیبت اور چغلی دونوں کبیرہ گناہ ہیں، جنھیں شیطان بنا سنوار کر انسان کے سامنے پیش کرتا ہے اور انسان اس کے مکر و فریب اور گمراہ کن جال میں پھنس جاتا ہے ایسا کرکے مسلمان اپنے ہی آپ پر خود ظلم کرتا ہے۔ چغلی کیا ہے؟ چغلی بھی غیبت ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ چغلی یہ ہے کہ لوگوں میں سے ایک کی بات دوسرے تک پہنچائی جائے، تاکہ ان میں فتنہ و فساد اور نفرت پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت اور خصوصاً چغل خور کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿ وَلاَ تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّھِیْنٍ . ھَمَّازٍ مَّشَّآئٍ بِنَمِیْمٍ . مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ . عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ . اَنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَّبَنِیْنَ﴾ [القلم: ۱۰ تا ۱۴] ’’( اے میرے نبی!) کسی ایسے شخص کا کہا بھی نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا، بے وقار، کمینہ، عیب گو، چغل خور، بھلائی سے روکنے والا، حد سے بڑھ جانے والا گناہ گار، سرکش پھر ساتھ ہی بے نسب ہے۔‘‘ اور سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ نَمَّامٌ )) [1] ’’چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘ مسلمانو! اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اپنے آپ کا محاسبہ خود کر لو پہلے اس کے کہ تمھارا محاسبہ کیا جائے اور اپنے آپ کا خود وزن کر لو قبل اس کے کہ تم وزن کیے جاؤ۔ جواز کی چند شکلیں: اہلِ علم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ غیبت کن حالات میں جائز و روا ہے، مثلاً 1۔مظلوم کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان حاکم و سرپرست امیر یا قاضی کے سامنے بیان کرے۔ ( ظالم کے ظلم کو داد رسی کے لیے بیان کرنا غیبت کے
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۰۵۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۰۵)