کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 288
’’ان کے پہلو اپنے بستروں سے الگ رہتے ہیں، اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے، وہ اس سے خرچ کرتے ہیں، کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے پوشیدہ کر رکھا ہے، یہ اس کا بدلہ ہے، جو وہ عمل کرتے تھے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں اس اسلام کے سر، ستون اور اس کی کوہان کی چوٹی کی خبر نہ دوں؟ میں نے عرض کی: کیوں نہیں، اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ضرور خبر دیجیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس دین کا سر اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے اور اس کی کوہان کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔‘‘ پھر فرمایا : ’’میں تمھیں ان سب اعمال کے سر کردہ عمل کا پتا نہ دوں؟ ‘‘ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ضرور فرمائیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور فرمایا: ’’اس پر قابو رکھو۔‘‘ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہماری زبان سے کی گئی باتوں پر بھی جوابدہی ہوگی؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھیں تیری ماں گم پائے، لوگوں کو منہ کے بل جہنم میں گرانے والی اسی زبان سے نکلی ہوئی باتیں ہی تو ہونگی!!‘‘ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَمَّا عُرِجَ بِيْ مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَھُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ، یَخْمِشُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَصُدُوْرَھُمْ، فَقُلْتُ: مَنْ ھٰؤُلَائِ یَا جِبْرِیْلُ؟ قَالَ: ھٰؤُلَائِ الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ لُحُوْمَ النَّاسِ، وَ یَقَعُوْنَ فِيْ أَعْرَاضِھِمْ )) [1] ’’جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا، جن کے ناخن تانبے کے تھے، ان سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزت و آبرو کے در پے ہوتے تھے۔‘‘ مسلمانو! اس غیبت کو معمولی سا گناہ سمجھو اور نہ اس کے معاملے کو حقیر جانو، کیونکہ یہ بہت ہی بڑا گناہ اور انتہائی خطرناک جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَتَحْسَبُوْنَہٗ ھَیِّنًا وَّھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمٌ﴾ [النور: ۱۵]
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۴۸۷۸) مسند أحمد (۳/ ۲۲۴)