کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 274
دعوتِ مباح: اگر وہ اس پر بھی قادر نہ ہو تو وہ اسے مستحبات کو چھوڑ کر مباحات میں مشغول کر دیتا ہے، تاکہ وہ لایعنی امور ہی میں مصروف رہے۔ شیطان انسان کی رغبت کو دیکھتا ہے، پھر اس کے پسندیدہ افعال کی طرف آتا ہے اور اس کی خواہشاتِ نفس اور رغبت و ارادے کی طرف سے اس کے لیے شر کے دروازے کھول دیتا ہے۔ نفسِ انسانی تو برائی کا حکم دینے والا ہے، سوائے ان لوگوں کے جن پر اللہ نے اپنا رحم فرما دیا۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَ لَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ . اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ﴾ [الفاطر: ۵، ۶] ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، تمھیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے، اور نہ دھوکے باز شیطان تمھیں غفلت میں ڈالے، یاد رکھو شیطان تمھارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن ہی جانو، وہ تو اپنے گروہ کو صرف اس لیے ہی بلاتا ہے کہ وہ سب جہنم واصل ہو جائیں۔‘‘ جن گناہوں اور برائیوں کو انسان حقیر اور چھوٹا سمجھتا ہے شیطان ان پر بھی قانع ہو جاتا ہے۔ اللہ کے بندو! شیطان کے دروازوں سے بچو۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( إِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ یَئِسَ أَنْ یُعْبَدَ بِجَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ، وَلٰکِنْ رَضِيَ بِالتَّحْرِیْشِ بَیْنَکُمْ )) [1] ’’شیطان اس بات سے تو مایوس ہو چکا کہ جزیرۃ العرب میں اس کی کوئی عبادت کرے، البتہ وہ اسی پر راضی ہو گیا ہے کہ وہ لوگوں کو باہم لڑاتا بِھڑاتا رہے اور ان کے دلوں میں با ہمی نفرت کے بیج بوتا رہے۔‘‘ و صلی اللّٰه علی نبینا محمد و علی آلہ و سلم۔
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۸۱۲)