کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 272
’’صَنَائِعُ الْمَعْرُوْفِ تَقِيْ مَصَارِعَ السُّوْئِ‘‘[1] ’’اچھے کام برائیوں کے اڈوں (سوے خاتمہ) سے بچاتے ہیں۔‘‘ (10) شیطان کے مکر سے بچنے کے لیے اللہ کے ذکر سے اپنی زبان کو تر رکھنا چاہیے۔ اللہ کی تسبیح (سبحان اللّٰه ) تحمید (الحمدللّٰه) تکبیر (اللّٰه أکبر) تہلیل (لا إلہ إلا اللّٰه ) اور استغفار (أستغفر اللّٰه ) کرتے رہو۔ صحیحین میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( إِذَا قَالَ الْمُؤْمِنُ: لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْرٌ۔ مِائَۃَ مَرَّۃٍ فِيْ أَوَّلِ یَوْمِہٖ کَانَ ذٰلِکَ حِرْزًا لَہُ مِنَ الشَّیْطَانِ فِيْ یَوْمِہٖ، وَ کَانَتْ کَعِتْقِ عَشْرِ رِقَابٍ، وَکَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ مِائَۃَ حَسَنَۃٍ )) [2] ’’اگر کوئی مومن نمازِ فجر کے بعد دن کے شروع میں ہی سو مرتبہ یہ کہے: (( لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْیٍٔ قَدِیْرٌ )) ’’اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، سب بادشاہی صرف اسی کے لیے ہے اور ہر طرح کی تعریف بھی اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ تو یہ کلمہ اس کے لیے سارا دن شیطان کے شر سے حفاظت کا ذریعہ بن جائے گا اور اس کو دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے میزانِ حسنات میں سو نیکیاں لکھے گا۔‘‘ (111) شیطان کے شر سے بچنے ہی کے لیے اعلاے کلمۃ اللہ کی خاطر جہاد کرنا بھی ہے۔ (12) شیطان کے فریب اور شر سے بچاؤ کے لیے خیرو بھلائی اور علم کی محفلوں میں شرکت کرنا اور لہو و لعب یا کھیل تماشے اور باطل و غفلت بردوش محفلوں سے دور رہنا بھی ضروری ہے، کیونکہ اس قسم کی لہو ولعب کی مجلسوں میں شیطان شریک ہوتا ہے اور لوگوں کو آپس میں لڑاتا، ایک دوسرے کے دلوں میں نفرت ڈالتا اور شقاوت و بد بختی کا سبب بنتا ہے۔ یہ برائی اس حد تک بھی بڑھ سکتی ہے کہ انسان اپنے ہی نفس سے دشمنی کر بیٹھتا ہے، حتی کہ شراب پینا اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنا شروع کر دیتا ہے۔ (13) شیطان کے شر سے بچنے کے لیے اللہ کی وحدانیت کو ماننا، اسی پر توکل کرنا اور خلوصِ دل سے اللہ وحدہ ہی کے لیے ہر قسم کی عبادت بھی تیر بہدف نسخہ ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے:
[1] المعجم الکبیر، رقم الحدیث (۸۰۱۴) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۲۹۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۶۹۱)