کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 266
اللہ تعالیٰ نے شیطان ابلیس کو دلوں میں برے وسوسے ڈالنے، باطل خیالات کا زہر پھونکنے اور یہ فعل بار بار دہرانے کی طاقت دی ہے، تاکہ بندہ گناہ کرنے کی فکر میں لگ جائے، پھر قصد و ارادہ کرے اور پھر اس فعلِ بد کا ارتکاب کرلے، کیونکہ ہر فعل کی ابتدا پہلے سے دل میں اس فعل کے بارے میں سوچ و فکر ہی سے ہوتی ہے، اسی طرح اللہ تعالی نے شیطان لعین کو گناہ کے بنا سجا کر پیش کرنے کی قدرت بھی دی ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے: ﴿ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ [الأنعام: ۴۳] ’’اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال کو آراستہ کر دیا۔‘‘ البتہ اللہ تعالی نے شیطان کو کسی چیز کے لیے محبت و الفت پیدا کر دینے کی قدرت نہیں دی، کیونکہ کسی چیز سے محبت پیدا کر دینے کی قدرت صرف اللہ وحدہ کو حاصل ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ﴾ [الحجرات: ۷] ’’اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، اگر بہت سارے معاملات میں وہ تمھارا کہا مانیں تو تم مشکل میں پڑ جاو، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمھارے لیے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا ہے، اور کفر و گناہ اور نافرمانی کو تمھاری نگاہوں میں نا پسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس شریر مخلوق کو یہ بھی قدرت دی ہے کہ وہ کافروں کو بہکائے اور جوش و خروش کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کرنے پر اکسائے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ تَؤُزُّھُمْ اَزًّا . فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْھِمْ اِنَّمَا نَعُدُّلَھُمْ عَدًّا﴾ [مریم: ۸۳، ۸۴] ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم کافروں کے پاس شیطانوں کو بھیجتے ہیں جو انھیں خوب اکساتے ہیں، آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کریں ہم تو خود ہی ان کے لیے مدت شماری کر رہے ہیں۔‘‘ اس شیطان مردود کو اللہ نے یہ قدرت بھی دی ہے کہ وہ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے