کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 258
بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ﴾ [آل عمران: ۱۰۰] ’’اگر تم ان لوگوں میں سے کسی گروہ کی پیروی کرو گے، جنھیں کتاب دی گئی تھی تو وہ تمھیں ایمان لا چکنے کے بعد پھر کافر بنا دیں گے۔‘‘ اسلام نے تہذیبِ جدید اور مغربی مصنوعات میں سے مفید اشیا سے استفادہ کرنے سے ہرگز نہیں روکا اور نہ ان کی ایجاداتِ مفیدہ کو اپنانے سے منع کیا ہے، وہ اشیا طب و سائنس سے تعلق رکھتی ہوں یا ٹیکنالوجی سے، البتہ اسلام نے مہلک امراض اور جان لیوا بیماریوں کا سبب بننے والی اشیا و افعال سے روکا ہے، جو کسی کے پاس سے بھی گزر جائیں تو اسے نجس و نا پاک کر دیتی ہیں۔ اس تہذیب کا کیا فائدہ جس سے انسان اپنے معیار ہی سے گر جائے اوروہ غیر اللہ کی بندگی کرنے لگے، درہم و دینار کی بندگی، اپنی خواہشات کی بندگی، نیز مال و دولت اور شہوات کی بندگی پر لگ جائے اور پھر بدبختی کی انتہائی گہرائیوں میں جا گرے جن میں آج کل وہ لوگ گرے ہوئے ہیں، جن پر اس تہذیبِ جدید کا راج ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَ عَبْدُ الدِّرْھَمِ وَعَبْدُ الْخَمِیْصَۃِ، إِنْ أُعْطِيَ رَضِيَ، وَإِنْ لَمْ یُعْطَ سَخَطَ ، تَعِسَ وَانْتَکَسَ، وَإِذَا شِیْکَ فَلَا انْتَقَشَ )) [1] ’’درہم و دینار کا بندہ اور چادر و نقش و نگار کا بندہ یہ سب لوگ تباہ ہو گئے (انھوں نے اپنی آخرت برباد کر لی) اگر انھیں کچھ ملے تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر انھیں کچھ نہ ملے تو وہ ناخوش ہوتے ہیں ۔۔۔۔‘‘ ہمارے اپنے۔۔۔ مگر تہذیبِ مغرب کے ایجنٹ۔۔! انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض ہمارے اپنے جو ہماری ہی بولی بولتے ہیں وہ مغرب کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ تہذیبِ مغرب کی عظمت بیان کرتے نہیں تھکتے اور اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ لوگوں کو تہذیبِ مغربی کی نقالی پرآمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ تہذیب جو تباہی و بربادی اور تخریب کاری کا پیش خیمہ ہے۔ ہمارے ہی بھائی اس گمراہ مغربی تہذیب کے داعی بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہ داعی ہیں جو دراصل جہنم کے دروازے پر کھڑے ہیں، جس نے ان کی مان
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۸۸۷)