کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 215
نہیں ہوتا کہ اس سے عورت کی شخصیت مجروح ہوگی اور اس کے ارادوں کی نفی ہوگی یا خاندان میں الفت و محبت کے نشانات مٹیں گے، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ مرد و عورت میں فطرتی فرق: اللہ نے عورت کو کچھ کاموں کے لیے بنایا ہے اور اسے ان کی اہلیت سے نوازا ہے، اسی طرح مرد کو کچھ دیگر کاموں اور ذمہ داریوں کے لیے پیدا فرمایا ہے اور اسے ان کا اہل بنایا ہے۔ اس کی ضرورت کے مطابق اسے قوی، جسمانی، نفسیاتی اور اجتماعی و معاشرتی ساخت سے نوازا ہے۔ اگر قوامیت و سربراہی مرد سے لے کر عورت کو دے دی جائے تو اس کا معنیٰ یہ ہو گا کہ عورت پر ایسے کام کی ذمہ داری ڈال دی گئی، جس کی اس میں طاقت نہیں ہے اور خاندان اپنی اصل لائن سے ہٹ جائے گا۔ مرد کا حقِ قوامیت عورت کو دے دینا گویا خاندان کو مشکلات و مصائب میں مبتلا کر دینے کے مترادف ہے۔ مرد و زن کی جسمانی ساخت میں اللہ نے کچھ فطرتی فرق رکھے ہوئے ہیں، جن کی بنیاد پر وہ دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لائق ہیں اور وہ ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کو انجام دینے پر قادر نہیں ہیں، اس قوامیت و سربراہی کے اجزا میں سے کسی بھی جزو کی کمی پہلے تو خاندان کو نقصان دے گی اور پھر وہ پورے معاشرے کے لیے مضر ثابت ہوگی، لہٰذا جو لوگ مرد سے قوامیت چھین لینا چاہتے ہیں، وہ حرص و ہوا کے بندے اور ہوس پرست لوگ ہیں اور وہ احمق ہیں جو شریعتِ اِلٰہیہ کو چیلنج کر رہے ہیں۔ قوامیت و سربراہی: مرد کی قوامیت و سربراہی کا معنیٰ صرف یہ ہے کہ وہ سربراہِ خاندان ہونے کی حیثیت سے افرادِ خاندان کے ابدان و ادیان کی سلامتی کا ذمہ دار ہے۔ وہ خاندان کو برائی و ذلالت اور انحراف کے راستوں سے دور رکھے گا۔ وہ اپنے آپ کو حدود اللہ کو قائم کرنے اور شعائرِ دینیہ کی تعظیم کرنے میں اعلی مثال بنائے گا، وسعتِ ظرفی اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ کرے گا، وہ ایسا نگران ہے جو اپنی چراگاہ کی نگرانی کرتا ہے ۔ سر براہِ خاندان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کام کاج، عبادت اور خاندان کی ضروریات کے لیے اوقات کی تقسیم میں توازن پیدا کرے، ہر حقدار کو اس کا پورا پورا حق دے، اگر گھر کا سر براہ اپنی