کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 212
لمحۂ فکریہ: کیا آج کل ہمارے مسلم خاندان اپنا یہ تربیتی عمل پورا کر رہے ہیں؟ کیا وہ نوجوان نسل کو اتنی قوت و متانت اور رسوخ مہیا کر رہے ہیں جن کے بل بوتے پر وہ بے دینی، دہریت اور مغربی فکری یلغار کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں؟ کیا افرادِ خاندان درسِ قرآن کی بساط بچھاتے ہیں یا صرف وہ گناہ و نافرمانی کے مناظر ہی دیکھتے دکھاتے رہتے ہیں؟ کیا ہمارے بچے ہمارے گھروں میں مفید پند و نصیحت، وعظ و ارشاد اور اعلی اخلاق و آداب سیکھنے کا موقع پاتے ہیں؟ صالح خاندان کے قائم کرنے میں خاندان نے اپنے تربیتی عمل میں جو بھی کوتاہی کی اس کے برے نتائج بچوں اور بچیوں کے کردار و عمل پر اثر انداز ہوں گے اور پھر معاشرے کی تعمیر و ترقی، اس کی فکر و سوچ اور اس کے امن و امان پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے۔ خاندانی ذمہ داریوں کا ادا کرنا ایک امانت ہے، جس کے بارے میں میاں بیوی دونوں سے جواب دہی ہو گی، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ، اَلْإِمَامُ رَاعٍ وَ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِيْ أَھْلِہٖ وَھُوَ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ، وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِيْ بَیْتِ زَوْجِھَا وَمَسْؤُوْلَۃٌ عَنْ رَعِیَّتِھَا )) [1] ’’تم میں سے ہر شخص جواب دہ ہے اور ہر شخص اپنے زیرِ اثر لوگوں کا ذمہ دار ہے۔ حاکم و امام بھی ذمہ دار ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے۔ مرد اپنے گھر میں ذمہ دار ہے اور وہ اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر میں ذمہ دار ہے اور وہ اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘ (4)۔میاں بیوی کی امانت و ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے گھروں کو برائی کے تمام ذرائع سے پاک رکھیں اور گھر والے اپنے بچوں کو فرائض و واجبات ادا کرنے کا پابند بنائیں اور انھیں فضائل و استحباب والے امور کی ترغیب دلائیں۔ (5)۔خاندان کی ذمہ داریوں بلکہ اغراض و مقاصد میں سے ایک اہم ترین چیز یہ ہے کہ وہ اپنے
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۸۵۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۸۲۹)