کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 209
کو جس کا بچہ ہے، اس کے بچے کی وجہ سے۔ اور وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے، پھر اگر وہ دونوں آپس کی رضا مندی اور باہمی مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔ اور اگر تم چاہو کہ اپنے بچوں کو دودھ پلوائو تو تم پر کوئی گناہ نہیں، جب معروف طریقے کے مطابق پورا ادا کر دو جو تم نے دیا تھا اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک اللہ اس کو جو تم کر رہے ہو، خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ وہ خاندان جسے سعادت، خوشی اور داخلی امن واستقرار کی تلاش ہے، وہ اپنی زندگی کی بنیاد ان راسخ امور پر رکھتا ہے، جو اس کے ضامن ہیں، جن میں سے اہم ترین امور میاں بیوی کا باہم ایک دوسرے کے حقوق کا احترام اور رعایت کرنا، اچھے طریقے سے زندگی گزارنا اور وسیع آفاق کو جنم دینا ہے، تاکہ میاں بیوی کے تعلقات میں گہرائی و تقویت آئے اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت کے چشمے پھوٹیں، تب جاکر میاں بیوی دونوں ہی ایک دوسرے سے سکون پا سکتے ہیں، جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے۔ اسی طرح خاندان باہمی اختلافات سے محفوظ رہ سکتا ہے اور اگر کبھی کوئی معمولی سا اختلاف پیدا ہو جائے تو حبِ صادق اسے زائل کر دیتی ہے۔ حکیم و خبیر ذاتِ الٰہی کو معلوم تھا کہ افراد اور خاندان میں کبھی کبھی اختلاف ہو جانے کی شکل میں ان کے دلوں میں نفرت پیدا ہو سکتی ہے، ایسے وقت میں شیطان اپنی مراد پوری ہوتی دیکھتا ہے تاکہ اس حوالے سے خاندانی نظام میں دراڑیں ڈال دے، لیکن قرآنی تعلیمات ایسے حالات میں بھی راہنمائی کرتی ہیں، تاکہ زندگی میں صدق و صفا، دلوں میں پیار و محبت اور خاندان میں رونق و جمال لوٹ آئیں، چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ وَ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا﴾ [النساء: ۱۹] ’’اور اپنی بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اور اگر تمھیں ان سے نفرت بھی ہو جائے تو یاد رکھو کہ ہوسکتا ہے تمھیں کسی چیز سے نفرت ہو، لیکن اللہ نے اس میں تمھارے لیے خیرِ کثیر پنہاں کر رکھی ہو۔‘‘ اسی لیے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: