کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 205
ہیں اور یہ لوگ ایسے گنگناتے اور گاتے پھرتے ہیں جیسے کوئی لڑائی ہوئی ہی نہیں۔ ان میں کسی طرح کے ہولناک واقعات رونما ہی نہیں ہوئے، ہم دلوں کے مردہ ہو جانے اور بصیرت کے چھن جانے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ مسلمانو! اپنے نفس اور اپنی سماعت کو کھیل تماشوں اور شیطان کی راہوں سے محفوظ رکھو۔ انھیں باغاتِ جنت بناؤ۔ قرآن پڑھنے سننے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے حلقے قائم کرو، تاکہ تم اس کا پھل پاؤ، گمراہی کے بجائے تمھیں سیدھا راستہ ملے، اندھے پن کی جگہ بصیرت حاصل ہو، نیکی کی ترغیب ملے، برائی سے نجات حاصل ہو، دلوں کو زندگی ملے اور روحانی امراض کی دوا و شفا اور ان سے نجات ملے، خود ان لوگوں میں سے بنو جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے: ﴿ وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا﴾ [الفرقان: ۷۲] ’’اور جو لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا ہے: ﴿ وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ﴾ [المؤمنون: ۳] ’’جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ‘‘ جواز کی ایک مشروط شکل: جی ہاں، نکاح اور شادی کے موقعے پر دف بجانے اور ایسے اشعار گانے کی اجازت ہے، جن میں ناجائز تعریفی کلمات نہ ہوں اور یہ خاص طور پرعورتوں اور بچیوں کے لیے جائز ہے۔ یہ دف نکاح اور سفاح (بدکاری) میں فرق کرنے کے لیے ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( فَصْلُ مَا بَیْنَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ الدَّفُّ وَالصَّوْتُ فِيْ النِّکَاحِ )) [1] ’’حلال اور حرام میں نکاح کے موقع پر دف بجانے اور خوشی کی جائز آواز نکالنے کا فرق ہے۔‘‘ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ’’ان کے نکاح اور رخصتی کے موقع پر لڑکیوں نے دف بجائی اور غزوۂ بدرمیں ہمارے جو
[1] مسند أحمد (۳/ ۱۸) سنن الترمذي، برقم (۱۰۸۸) سنن النسائي (۶/ ۱۲۷) سنن ابن ماجہ، برقم (۱۸۹۶)