کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 201
لے جاتا ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے بچے اور دور رہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَ عِدْھُمْ وَ مَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا﴾ [الإسراء: ۶۴] ’’ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے، بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لے اور ان کے مال اور اولاد میں اپنے آپ کو شریک بنا لے اور انھیں (جھوٹے) وعدے دے لے، ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں، سب کے سب سراسر فریب ہیں۔‘‘ اللہ کے بندو! گانے اور کھیل تماشے کی جگہیں چھوڑ دو، کیونکہ یہ گناہ کے اڈے، شیطان کا جال اور زنا کاری کے راستے ہیں۔ یزید بن ولید رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اے بنی امیہ! گانے بجانے سے پرہیز کرو، کیونکہ یہ حیا کو کم کرتا، شہوت بڑھاتا اور مروت کو تباہ کر دیتا ہے، اور یہ شراب کا نائب ہے جو شراب جیسا کام کرتا ہے۔‘‘[1] عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کے اتالیق (استاد) کو لکھا تھا: ’’تعلیم و ادب کے طور پر سب سے پہلے انھیں کھیل تماشے والی جگہوں کی نفرت سکھاؤ، جس کی ابتدا شیطان سے ہوتی ہے اور اس کا انجام اللہ کا عذاب ہے۔ مجھے اہلِ علم سے یقینی خبر اور اطلاع ملی ہے کہ گانے بجانے کی محفل میں شرکت کرنے سے دل میں یوں نفاق پیدا ہوتا ہے، جس طرح پانی سے گھاس اُگتی ہے۔‘‘[2] انھوں نے عمر بن ولید کو خط لکھا، جس میں مرقوم تھا: ’’تم نے آلاتِ موسیقی کی بدعت کو تقویت دی ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں تمھاری طرف کچھ لوگ بھیجوں جو تیری بُری کھوپڑی کو کاٹ ڈالیں۔‘‘[3]
[1] ذم الملاھي لابن أبي الدنیا (ص: ۴۱) شعب الإیمان للبیھقي (۴/ ۲۸۰) [2] ذم الملاھي (ص: ۴۰) [3] سنن النسائي (۷/ ۱۲۹)