کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 194
حسنِ عاقبت پرہیز گاروں ہی کے لیے ہے۔ معاشرے کی اِصلاح کرنے اور لوگوں کو ہدایت کے راستے پر لانے سے مایوس نہ ہوں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اذیت اور چوٹ پر صبر کیا تھا حتیٰ کہ اللہ کے دین میں لوگ فوج در فوج داخل ہوئے۔
ہر کام کا نتیجہ اور انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ دعوت اِلی اللہ کا کام کرتے رہو اور دعا کرتے رہو، انسان کی ہدایت تو اس کے خالق کے ہاتھ میں ہے۔ غزوۂ اُحد میں ابو سفیان مشرکین کا سپہ سالار تھا اور اس کا نعرہ تھا: ’’أعل ھبل‘‘ (ہبل سرفراز ہو) اور فتح مکہ کے موقع پر وہ مسلمانوں کے ساتھ تھے اور ان کا نعرہ تھا: ’’لا إلہ إلا اللّٰه ‘‘ وحشی نے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، پھر وہ مسلمان ہوگئے اورنبوت کے جھوٹے مدعی مسیلمہ کذاب کو قتل کیا۔ اپنے آپ کو سنبھال کر رکھو:
(( فَالْقُلُوْبُ بَیْنَ أَصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ، یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآئُ )) [1]
’’کیونکہ دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں، وہ جب چاہے انہیں پھیر دے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ ثابت قدم رکھے۔ آمین
بندہ چاہے گناہوں میں ڈوب جائے مگر توبہ کرنے سے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کافروں کے سپہ سالار تھے۔ ان کے ہاتھوں کتنے بڑے بڑے عظیم صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے، جب اللہ نے انھیں ہدایت دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسلام لانے اور بیعت کرنے کے لیے آئے تو عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میری شرط یہ ہے کہ میری خطائیں معاف کر دی جائیں۔ تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( یَا خَالِدُ! أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَھْدِمُ مَا قَبْلَہٗ، وَأَنَّ التَّوْبَۃَ تَجُبُّ مَا قَبْلَھَا؟ )) [2]
’’اے خالد! کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اسلام پہلے کے تمام گناہوں کو ختم کر دیتا ہے اور توبہ کرنے سے پہلے کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘
اپنے آپ کو گناہوں کی دلدل سے بچا کے رکھو اور گناہوں سے توبہ کرکے اپنے رب کی
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۶۵۴)
[2] دیکھیں: صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۲۱)