کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 193
سے، اور سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے تلواروں کے ستّر (۷۰) زخم کھائے تھے۔ اب ہمیں بھی اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اپنے دین کے لیے کیا پیش کیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس سلسلے میں ہم سے سبقت حاصل کرگئے، شرفِ صحابیت کے حصول اور بہادری کے جوہر دکھانے میں ان کے جسموں کے ٹکڑے ہوئے، زخم کھائے، عورتیں بیوہ ہوگئیں، انھوں نے اپنی جانوں کو اپنے دین پر فدا کر دیا تب جا کر یہ دینِ کامل ہم تک پہنچا، لہٰذ۱ ان کی کوششوں کی ہم قدر کرتے ہیں اور ان کی محنت کے شکر گزار ہیں اور ان پر خوش ہیں کیونکہ اللہ ان پر خوش ہے۔ رضي اللّٰه عنہم و أرضاہم نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معمولی نافرمانی کی وجہ سے اس جنگ میں کئی جانیں گئیں۔ نافرمانی کی وجہ سے آدم علیہ السلام جنت سے نکالے گئے، (( وَدَخَلَتِ امْرَأَۃُنِ النَّارَ فِيْ ھِرَّۃٍ )) [1] ’’اور ایک عورت بلی کو باندھ کر بھوکے مار دینے کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی۔‘‘ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو تاکہ مشکل اوقات میں تمھارا ساتھ دیا جائے اور تمھاری مشکلات آسان ہوں، اور کوئی ایسا کام نہ کرو جو تمھارے خود اپنے ہی خلاف ہو اور اس سے تمھارے دشمن کی طاقت مزید بڑھے۔ اس جنگ میں پندرہ پندرہ سالہ سمرہ اور رافع رضی اللہ عنہما نے بھی جہاد کیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بچوں کے لہو سے یہ دین سرخرو ہوا، نہ کہ کھیل کود اور دنیاوی امور کے پیچھے بھاگنے سے۔ اس زمانے کے والدین نے اپنے بچوں کی تربیت صحیح انداز سے کی تو انھیں اس کا پھل بھی ملا، آج کل کے نوجوانوں نے اپنے دین کے لیے کیا کیا ہے؟ اور ان میں کتنی بہادری ہے؟ انھیں فکر کس بات کی ہے؟ ان کی سوچ کہاں تک ہے؟ کس چیز سے ان کا واسطہ ہے؟ بُری صحبت سے بچو۔ تمھیں ان بد فطرت دوستوں کی ضرورت پڑے گی تو وہ ساتھ چھوڑ جائیں گے، اچھے وقت میں تمھارے دوست اور برے وقت میں وہ تمھارے دشمن ہیں۔ منافقوں نے شدید حاجت و ضرورت کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ نیک لوگوں کی صحبت میں رہو وہ موجودگی اور عدمِ موجودگی میں تمھارے محافظ ہیں۔ تمھارے فائدے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور تمھیں نقصان سے بچاتے ہیں۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۳۱۸) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۲۴۲)