کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 191
عروج پر پہنچی، اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے لیے فتح و نصرت نازل فرمائی اور مشرکوں کا زور ٹوٹ گیا، ان کا پرچم سر نگوں ہوگیا تو وہ شکست کھا کر بھاگ نکلے۔ جب تیر اندازوں نے مشرکوں کی ہار دیکھی تو انھوں نے سمجھا کہ اب مشرک واپس نہیں آئیں گے، چنانچہ تیر اندازوں میں سے کچھ اپنی جگہ چھوڑ کر نیچے مالِ غنیمت اکٹھا کرنے اتر آئے، جبکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں وہیں رہنے کا حکم دیا تھا۔ ان کے امیر نے بھی اپنی اپنی جگہ سنبھالے رکھنے کی تاکید کی تھی، جب وہ اتر گئے تو وہ ٹیلہ خالی ہو گیا تب سیدنا خالد بن ولید نے پلٹ کر پہاڑ کے پیچھے سے حملہ کردیا ( ان دنوں تک وہ مشرک ہی تھے) انھوں نے پہاڑ پر باقی دس تیر اندازوں کو شہید کر دیا اور پھر مسلمان مشرکین کے نرغے میں آگئے۔ پیچھے سے مشرکوں کے گھوڑ سواروں اور آگے سے مشرکین کی پیدل فوج نے مسلمانوں کو گھیر لیا، مسلمان گھبرا کر بکھر گئے اور ان میں لڑائی کی ہمت نہ رہی۔ وقتی طور پر مشرکوں کا جھنڈا بلند ہوا اور مسلمانوں کی صفوں میں ہلچل مچ گئی، تب جیسا اللہ نے چاہا وہ ہوا، جس کو چاہا شہادت سے نوازا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ثابت قدم رکھا، جبکہ وہ سب کو اکٹھا کر رہے تھے حتی کہ کچھ لوگ لوٹ آئے۔ پھر مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے گھیرے میں لے لیا، انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی کر دیا اور پتھر مار کر دانت مبارک شہید کر دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خود کی دو کڑیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک میں گھس گئیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اقدس پر جو جنگی لباس والی ٹوپی (خود) تھا وہ توڑ دیا اور پتھر مارے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گڑھے میں گر گئے جو فاسق ابو عامر نے کھودا تھا تاکہ مسلمانوں کو شکار کرسکے۔ تب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے آپ کا ہاتھ تھاما اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے گلے سے لگایا۔ ان کے سامنے ہی سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے۔ تقریباً دس مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا اور وہ سب شہید ہوگئے تو پھر سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے مشرکین کا مردانہ وار مقابلہ کیا حتی کہ انھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کر دیا، ان کا ہاتھ شل ہوگیا، سیدنا ابو دجانہ رضی اللہ عنہ پشت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے رہے۔ تیر اور نیزے ان کو لگتے رہے لیکن وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کی خاطر اپنی جگہ سے نہ ہلے، تب شیطان اونچی آواز