کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 180
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھانا سفارش کرنا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش مقبول ہے جو رد نہیں کی جاتی، لیکن قرض ایسی چیز ہے جو ادا کیے بغیر ساقط نہیں ہوتی، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقروض کا جنازہ ہی نہ پڑھاتے، کیونکہ قرض سفارش کی قبولیت میں مانع امر ہے۔ قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنا: مالدار آدمی کا قرض ادا کرنے میں پس و پیش کرنا بد ترین ظلم ہے اور پیسے موجود ہونے کے باوجود قرض ادا کرنے میں تاخیر کرنا ذلیل کن زیادتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُکُمْ عَلیٰ مَلِئٍ فَلْیَتْبَعْ )) [1] ’’مالدار کا پس وپیش کرنا ظلم ہے، اگر کسی کو کسی مالدار (سے قرضہ واپس لینے کے لیے اس) کے پیچھے لگایا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کے پیچھے لگ جائے۔‘‘ ایک روایت میں ہے: (( لَيُّ الْوَاجِدِ یُحِلُّ عِرْضَہٗ وَ عُقُوْبَتَہٗ )) [2] ’’مالدار کا قرض ادا کرنے میں پس و پیش کرنا، اس کی عزت کو حلال کر دیتا ہے اور اس کے لیے سزا کا جواز پیدا کر دیتا ہے۔‘‘ برادرانِ اسلام!: اللہ تعالیٰ کی توجیہات وہدایات اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتوں کو بغور دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ قرض کے معاملات کا تعلق احسان، رحم و کرم اور شفقت کے قواعد پر مبنی ہے جن میں سے دینِ اسلام کی آسانی اور وسعت پھوٹتی ہے۔ انھی اصول و قواعدِ احسان میں سے ایک قاعدہ یہ ہے کہ اگر حاجت مند کسی اچھے مقصد کے لیے قرض لینے پر مجبور ہو ہی جائے تو وہ قرض ادا کرنے کی نیک نیتی اور وفا کے عزمِ صادق سے قرض لے، نہ تو وہ کسی برے مقصد کے لیے قرض لے اور نہ وہ واپس کرنے کے سلسلے میں بد نیت ہو، چنانچہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیْدُ أَدَائَ ھَا أَدَّی اللّٰہُ عَنْہُ، وَمَنْ أَخَذَھَا یُرِیْدُ اِتْلَافَھَا أَتْلَفَہُ اللّٰہُ )) [3]
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۲۸۷) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۵۶۴) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۳۶۲۸) سنن النسائي، رقم الحدیث (۴۶۸۹) سنن ابن ماجہ، برقم (۲۴۲۷) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۲۵۷)