کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 174
عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ اپنے کام کاج اور بیرونی مصروفیات کے بعد اپنے گھر میں سلف صالحینِ امت کی تاریخ وسیرت کے مطالعہ میں مصروف رہتے، اگر انھیں پوچھا جاتا کہ آپ گھبرا نہیں جاتے تو وہ جواب دیتے: میں کیسے اور کیوں گھبراؤں؟ کیونکہ میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی معیت میں ہوتا ہوں۔[1] جو لوگ اپنے اوقاتِ فراغت کو مفید مطالعہ سے پُر کرتے ہیں اور حصولِ علم میں صرف کرتے ہیں، وہ ترقی و تہذیب میں بہت بلند مقام پا لیتے ہیں۔ وہ زندگی کو سمجھنے، اس کی اصلاح کرنے اور اس کے اغراض و مقاصد کو پالینے کی صلاحیت پا لیتے ہیں، اور جن لوگوں کا علم وثقافت صرف لہو و لعب، کھیل کود اور فیشن و لباس تک ہی ہوتے ہیں وہ دوسروں کے تابع اور رسوا حال رہتے ہیں اور قافلے کے ان آخری لوگوں میں رہ جاتے ہیں جن کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ چھٹیوں کے دوران مفید کاموں میں سے اسلامی دروس، لیکچرز اور علمی مذاکرات میں حاضری، صلہ رحمی اور عزیزو اقارب کی زیارت، اسلامی سمر سنٹرز کی سرگرمیوں میں شرکت کرنا اور طے شدہ اور ذکر کردہ قواعد و ضوابط کے مطابق تفریح کرنا بھی ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ان ہاتھوں کو اطاعت کے کاموں میں لگاؤ قبل ازیں کہ کہیں یہ تمھیں معصیت و نافرمانی کے کاموں میں لگا دیں۔‘‘ سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون و سلام علی المرسلین والحمد للّٰه رب العالمین۔
[1] تاریخ بغداد (۱۰/ ۱۵۴) سیر أعلام النبلاء (۸/ ۳۸۲)