کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 172
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت بھی ایک ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت بھی ایک ہے، جنھیں ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جاسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی و مزاح کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طویل العبادات، اندھیروں میں خشیتِ الٰہی سے رونے والے، گہرے خشوع وخضوع والے، ذکرِ الٰہی سے ہر وقت اپنی زبان کو تر رکھنے والے اور ہر وقت فکر و تامل میں مشغول رہنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( إِنَّ لِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَلِأَھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، فَأَعْطِ کُلَّ ذِيْ حَقٍّ حَقَّہٗ )) [1] ’’آپ کے رب کا آپ پر حق ہے، آپ کی جان کا آپ پر حق ہے، آپ کے اہل و عیال کا آپ پر حق ہے، پس ہر حق دار کو اس کا حق دو۔‘‘ مسئلہ فراغت: چھٹیوں کے شروع ہوتے ہی ماں باپ اور تربیت کرنے پر مامور لوگوں کے سامنے یہ مسئلہ ان کی نیندیں اڑانے کے لیے آجاتا ہے کہ فرصت و فراغت کے اوقات میں بچے اور بچیاں کیا کریں؟ ان اوقات کو کیسے کاٹیں؟ نوجوان نسل کا راہِ مستقیم سے انحراف دراصل اسی مسئلے کی صدائے بازگشت ہے اور موجودہ دور کی مادی تہذیب نے اس کے خطرات کو دو چند، بلکہ دہ چند کر دیا ہے اور ان خطرات و مضرات کو اور گہرا کر دیا ہے۔ نفسِ انسانی جب کام کاج یا مصروفیت سے خالی ہو تو وہ صرف خالی ہی نہیں رہتا بلکہ وہ خیر یا شر کسی نہ کسی سے بھر ہی جائے گا۔ اگر کوئی شخص اپنے نفس کو حق کے ساتھ مشغول ومصروف نہیں کرتا تو وہ باطل کے ساتھ مصروف ہو جاتا ہے۔ جی ہاں! اگر فرصت کے اوقات بڑھ جائیں اور انھیں کسی مفید کام میں لگانے کے بجائے ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو وہ خالی اوقات ایک مسئلہ بن جاتے ہیں۔ اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اگر کوئی تعمیری کام نہ ہوگا تو فرصت کے ان اوقات میں انحراف کے اسباب قوی ہو جاتے ہیں، ہیجان انگیزی پیدا ہوتی ہے، شعور اور فکر کی موت واقع ہو جاتی ہے، عقل کمزور و بوجھل ہو جاتی ہے، وہم و وسواس کے دروازے کھل جاتے ہیں اور خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۹۶۸)