کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 167
پھلانگ جاتے ہیں اور سیر و تفریح، کھیل کود کے لیے جو طریقہ بھی چاہتے ہیں اختیار کر لیتے ہیں، وہ اس میں حلال و حرام، جائز و ناجائز یا افضل و غیر افضل کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ ان لوگوں کے لیے ہم یہاں سلف صالحینِ امت کے کھیل کود اور تفریح کا انداز ذکر کر دیتے ہیں، تاکہ اس معاملے میں ان کا منہج و طریقہ واضح ہو جائے، چنانچہ سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ تفریح کی اہمیت و ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اپنے دلوں کی تفریح کا بھی اہتمام کرو، کیونکہ دل کو اگر کسی کام پر مجبور کیا جائے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے۔‘‘[1] اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’دلوں کی تفریح کا خیال رکھا کرو، اور ان کے لیے دانش وحکمت پر مبنی لطائف و طرائف کا بھی اہتمام کرو، کیونکہ دل بھی اسی طرح یک رنگی سے اکتا جاتے ہیں جیسے بدن اکتا جاتے ہیں۔‘‘[2] اور سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ’’میں جائز کھیل کود سے اپنے دل کی تفریح کرتا ہوں، تاکہ یہ میرے لیے حق پر قائم رہنے کے لیے زیادہ قوی رہے۔‘‘[3] لمحہ فکریہ: جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تفریح اور کھیل کود سلف صالحینِ امت کی زندگیوں میں بھی موجود ہے تو ایک سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ وہ لوگ تفریح کا اہتمام کیوں کرتے تھے؟ کیا وہ بھی فرصت و فراغت کے ہاتھوں تنگ آجاتے تھے؟ یا کسی تھکاوٹ و اکتاہٹ میں مبتلا ہو جاتے تھے؟ ہر گز نہیں! ان کی تفریح ان اسباب کے تحت نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ تو اپنے دلوں کو تازہ کرنے کے لیے ایسا کرتے تھے، تاکہ وہ محنت و ریاضت کے لیے پھر سے تیار ہوجائیں اور اللہ کی عبادت کے لیے چاک
[1] بھجۃ المجالس لابن عبد البر (ص: ۱۱۵) [2] جامع بیان العلم، رقم الحدیث (۶۵۹) الجامع للخطیب (۲/ ۱۲۹) [3] سید أعلام النبلاء (۵/ ۴۲۱)