کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 165
ہنسی مذاق کرنا، اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے مطلقاً سر تسلیمِ خم کر دینے اور بندگی کے منہج کے منافی ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان سے کہتے ہیں: حنظلہ تمھارا کیا حال ہے؟ وہ کہتے ہیں: میں نے عرض کی کہ حنظلہ تو منافق ہوگیا ہے۔ انھوں نے تعجب کرتے ہوئے سبحان اللہ کہا اور فرمایا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے عرض کی کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جنت و دوزخ کے بارے میں بتاتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہم اپنی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکل آتے ہیں تو ہمیں بیوی بچوں اور زمین جائیداد کی ذمے داریوں میں وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس طرح میں اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہما دونوں چلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! حنظلہ تو منافق ہوگیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَمَا ذَاکَ )) ’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جنت و دوزخ کی یاد دلاتے ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہم انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، اور جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکل جاتے ہیں تو بیوی بچوں اور زمین جائیداد کی ذمہ داریاں ہمیں ان باتوں میں سے اکثر چیزیں بھلا دیتی ہیں، تو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ، إِنْ کُنْتُمْ تَدُوْمُوْنَ عَلٰی مَا تَکُوْنُوْنَ وَفِيْ الذِّکْرِ لَصَافَحَتْکُمُ الْمَلَائِکَۃُ عَلٰی فُرُشِکُمْ وَفِيْ طُرُقِکُمْ، وَلٰکِنْ یَا حَنْظَلَۃُ سَاعَۃً وَ سَاعَۃً-ثَلَاثَ مَرَّاتٍ- )) [1] ’’قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم ہر وقت اسی حالت میں رہو، جس حالت میں تم میرے پاس ہوتے ہو اور ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوتے وقت ہوا کرتے ہو تو راہ چلتے اور تمھارے بستروں پر فرشتے تم سے مصافحہ کیا کریں، لیکن حنظلہ! کبھی وقت کسی طرح کا ہوتا ہے اور کبھی مصروفیات سے وقت کسی اور طرح کا ہو جاتا ہے۔ یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔‘‘
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۷۵۰)