کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 160
صحابہ کرام میں سے ہر شخص اخلاقِ حسنہ کے اعتبار سے اپنی ذات میں امت تھا۔ وہ گھٹیا امور سے بڑے دور رہنے والے لوگ تھے، جیسا کہ ان کے حالاتِ زندگی پڑھنے سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ اخلاقِ نبویہ: ہر اچھے اخلاق اور ہر قابلِ تعریف والے صفت سے متصف ہونے میں سب سے اعلیٰ مثال خود سید البشر محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملے میں مکمل نمونہ تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾ [الأحزاب: ۲۱] ’’تمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی میں بہترین نمونہ ہے، اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے اور اللہ کا بکثرت ذکر کرتا ہے۔‘‘ اللہ رب العزت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی عمدہ تربیت فرمائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اچھے کام اور عمدہ اخلاق کی تربیت اپنی امت کو دی۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الْأَخْلَاقِ )) [1] ’’میری بعثت ہی اس لیے ہوئی ہے تاکہ میں نیک و صالح اخلاق کی تکمیل کروں۔‘‘ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی پیارے انداز سے تعریف بیان کی ہے، ایسی تعریف کہ جو لوگوں کی سماعت سے بار بار ٹکراتی ہے جسے ملأ اعلیٰ (فرشتے) اور جن و انس سب تلاوت کرتے ہیں اور مرورِ زمانہ اسے دماغوں سے محو نہیں کر سکا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف پر مشتمل وہ ارشادِ الٰہی یہ ہے: ﴿ وَاِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ [القلم: ۴] ’’اور (اے نبی!) آپ اعلیٰ اخلاق کے مالک ہیں۔‘‘ ﴿ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا﴾ [النساء: ۷۹] ’’اور کسی کے لیے اللہ کا گواہ ہونا ہی کافی ہے۔‘‘
[1] مسند أحمد (۲/ ۳۱۸) الأدب المفرد (۲۷۳)