کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 147
موجبِ عذابِ الٰہی بھی ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان بدعات کی تردید کرے اور ان کے خطرات و نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کرے۔ سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ )) قلنا: لِمَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم؟ قال: (( لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ عَامَّتِھِمْ )) [1] ’’دین باہمی خیر خواہی کا نام ہے۔‘‘ ہم نے عرض کی کہ کس کی خیر خواہی کا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ کی، اس کی کتاب کی، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی، مسلمانوں کے ائمہ اور حکمرانوں کی اور عام مسلمانوں کی۔‘‘ اور سیدنا جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکات ادا کرنے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی تھی۔‘‘[2] اﷲ کے بندو! اپنے نفسوں کو ترغیب و ترہیب؛ ہر دو طرح سے کھینچے چلے جاؤ، کیونکہ اللہ کا خوف باعثِ ہدایت و شفا ہے، جبکہ خواہشاتِ نفس باعثِ ہلاکت و بربادی ہیں۔ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( ثَلَاثٌ مُنْجِیَاتٌ: خَشْیَۃُ اللّٰہِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِیَّۃِ، وَالْعَدْلُ فِيْ الرِّضَا وَالْغََضَبِ، وَالْقَصْدُ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنیٰ، وَثَلَاثٌ مُھْلِکَاتٌ: ھَویً مُتَّبَعٌ، وَشُحٌّ مُطَاعٌ، وَإِعْجَابُ الْمَرْئِ بِنَفْسِہٖ )) [3] ’’تین چیزیں باعثِ نجات ہیں: علانیہ اور در پردہ اللہ کا خوف، رضا و خوشی اور غم و غصہ میں عدل و انصاف، فقر و فاقہ ہو یا تونگری و مالداری، ہر حال میں میانہ روی اختیار کرنا۔ اور تین چیزیں باعثِ ہلاکت ہیں: وہ خواہشات جن کی ہر وقت پیروی کی جائے، وہ بخل جس کی فرماں برداری ہو، اور بندے کا اپنے آپ پر اترانا اور غرور وتکبر کرنا۔‘‘ فتنہ بردوش مجلسوں اور اخلاقی بدبو سے متعفن مقامات پر جانے سے بچیں۔ اللہ سے دین پر
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۵) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۷) [3] المعجم الأوسط (۵/ ۳۲۸) نیز دیکھیں: السلسلۃ الصحیحۃ، رقم الحدیث (۱۸۰۲)