کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 143
اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( إِنِّيْ قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ شَیْئَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَھُمَا: کِتَابُ اللّٰہِ وَ سُنَّتِيْ )) [1] ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ان پر عمل کرتے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے: اللہ کی کتاب اور اپنی سنت۔‘‘ ہوا و ہوس کے بندوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ملنے جلنے سے گریز کرو، کیونکہ ان کی رفاقت و دوستی کا نتیجہ ذلت و رسوائی ہوگا۔ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل میں بڑا جلد باز ہوتا ہے، جو دیوانہ وار ان کے پیچھے بھاگتا ہے۔ اسے سرداری چاہیے جس کے لیے وہ اپنے سے بڑوں کے تلوے چاٹتا اور ضعیفوں کی مذمت و تحقیر کرنا کوئی برا نہیں سمجھتا، اس کے کرتوت عجیب وغریب، اس کی بری حرکات و عیوب لا تعداد اور اس کی طبیعت و آرا انتہائی ردی قسم کی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے : ﴿ اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـھَہُ ھَوٰہُ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا . اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَھُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِِنْ ھُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا . اَلَمْ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ کَیْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَآئَ لَجَعَلَہٗ سَاکِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلًا﴾ [الفرقان: ۴۳ تا ۴۵] ’’کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے؟ کیا آپ اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں؟ کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں؟ وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔‘‘ اسی لیے جمہور سلف ر حمہم اللہ کہا کرتے تھے: ’’دو قسم کے لوگوں سے بچو، ایک وہ جسے اس کی خواہشاتِ نفس نے اور دوسرا وہ جسے حبِ دنیا نے اندھا کر رکھا ہو۔‘‘ ہر وہ شخص جو لوگوں کو اسلام کے علاوہ کسی دوسرے نظریے کی طرف دعوت دے وہ اہلِ حرص و ہوا اور اہلِ فساد میں سے ہے ، اور ہر وہ شخص جو کتاب و سنت اور اجماعِ امت کی مخالفت کرے اور لوگوں کو خود ساختہ قوانین کی طرف دعوت دے یا بدعتی افعال کی طرف بلائے یا پھر حریتِ فکر کی
[1] المستدرک للحاکم (۱/ ۱۷۲)