کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 130
نے انھیں جو کچھ اپنے فضل سے نوازا ہے وہ اسے چھپاتے ہیں، ہم نے کافروں کے لیے ذلت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ کافر خیر و بھلائی میں رکاوٹ بنتا اور حرام کھاتا ہے۔ اﷲ کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے، ان پر اس کا شکر بجا نہیں لاتا، بلکہ انھیں استعمال کرتا اور ان کا انکار کرتا ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی اس روش کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿ یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰہِ ثُمَّ یُنْکِرُوْنَھَا وَ اَکْثَرُھُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾ [النحل: ۸۳] ’’وہ اﷲ کی نعمتوں کو پہنچانتے ہیں، پھر ان کا انکار کر دیتے ہیں اور ان کی اکثریت ناشکری کرنے والوں کی ہے۔‘‘ وہ حرص اور ضلالت وگمراہی میں جیتے ہیں۔ انھیں ان اندھیروں سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں سوجھتی۔ اعضاے جسم جو ہدایت کا باعث بنتے ہیں، وہ ان سے صحیح معنوں میں استفادہ ہی نہیں کرتا۔ اس کا دل نا سمجھ، آنکھوں پر پردہ اور کانوں کی سماعت کے راستے میں رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ وہ نہ حق سنتا ہے اور نہ راہِ ہدایت ہی دیکھتا ہے۔ شیطان اور اس کے چیلے اسے گناہوں میں لت پت کیے رکھتے ہیں۔ وہ دنیا کی لذتوں میں غرق اور من مانیوں میں منہمک رہتا ہے۔ اس کے اعمال گرد و غبار کی طرح بے سود ہو جاتے ہیں۔ وہ عمل کرتا ہے مگر اسے ان کا بدلہ نہیں ملتا۔ دنیا میں عمل کی محض زحمت اور آخرت میں عذاب اس کا مقدر ہے۔ اﷲ کفار کو پسند نہیں فرماتا اور اس نے واضح طور پر بتا رکھا ہے کہ وہ کافروں کا دشمن ہے۔ جو شخص کوئی بھی اچھا یا برا عمل کرتا ہے، اﷲ اسے اس کے عمل کے مطابق ہی چادر پہنا دیتا ہے۔ فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( وَإِذَا أَبْغَضَ اللّٰہُ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیْلَ: یَا جِبْرِیْلُ! إِنِّيْ أُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضْہُ، فَیُبْغِضُہٗ جِبْرِیْلُ، ثُمَّ یُنَادِيْ فِيْ أَھْلِ السَّمَائِ: إِنَّ اللّٰہَ یُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوْہُ، فَیُبْغِضُہٗ أَھْلُ السَّمَائِ، ثُمَّ یُوْضَعُ لَہُ الْبَغْضَائُ فِيْ الْأَرْضِ )) [1] ’’اﷲ جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو جبرائیل ( علیہ السلام ) کو بلا کر کہتا ہے: اے جبریل! میں فلاں شخص سے ناراض ہوں تو بھی اس سے ناراض ہو جا، تو جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے
[1] مسند أحمد، رقم الحدیث (۱۷۴۴۳)