کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 128
’’کفار کے تمام اعمال و امور میں لازماً خلل و نقص واقع ہوتا ہے، جو ان امور کی منفعت کے مکمل ہونے میں مانع بن جاتا ہے۔ ان کے تمام امور یا تو بالکل ہی فاسد ہوتے ہیں یا کم ازکم ناقص ہوتے ہیں۔ رہا معاملہ علمِ آخر سے ،حتی کہ جو باقی رہنے والا ہے، تو اس سے کفار جاہل ہوتے ہیں۔‘‘[1] چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ھُمْ غٰفِلُوْنَ﴾ [الروم: ۷] ’’وہ دنیوی زندگی کے ظاہر کو کچھ جانتے ہیں، جبکہ وہ آخرت کے معاملے میں بالکل غافل و جاہل ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ یَجْھَلُوْنَ﴾ [الأنعام: ۱۱۱] ’’لیکن ان سے اکثر جاہل ہیں۔‘‘ ان کی اولاد انھی کے لیے مصائب و آزمایش (وبالِ جان) اور ان کا مال انہی کے لیے مشکلات اور پریشانیوں کا باعث ہوتا ہے۔ ان کی زندگی صرف جینے، کھانے اور پینے سے عبارت ہے، جبکہ ان کے کھانے پینے سے بھی برکت چھین لی گئی ہے، وہ تھوڑے سے سیر ہی نہیں ہوتے، چنانچہ ارشادِ نبوی ہے: (( اَلْکَافِرُ یَأْکُلُ فِيْ سَبْعَۃِ أَمْعَائٍ، وَالْمُسْلِمُ یَأْکُلُ فِيْ مِعًی وَّاحِدٍ )) [2] ’’کافر سات آنتوں کو بھر کر کھاتا ہے، جبکہ مسلمان صرف ایک آنت کو بھر کر کھاتا ہے ۔‘‘ تاکہ وہ عبادت بھی کر سکے۔ مومن ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی کے لیے اور تیسرا حصہ سانس لینے کے لیے رکھتا ہے، نیز مومن کا کھانا خیر و برکت والا ہوتا ہے، حتی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: (( طَعَامُ الْأِثْنَیْنِ یَکْفِيْ الثَّلَاثَۃَ، وَطَعَامُ الثَّلَاثَۃِ یَکْفِيْ الْأَرْبَعَۃَ )) [3]
[1] اقتضاء الصراط المستقیم (ص: ۵۷) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۳۹۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۰۶۰) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۳۹۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۰۵۸)