کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 119
نصیحت کرنے اور تمھاری خیرخواہی کرنے والوں میں سے ہوں ۔‘‘ مردانگی قول و قرار میں قوت، حق کے ساتھ ڈٹ جانے اور مخالفاتِ شرعیہ سے دوسروں کو حکمت و دانائی کے ساتھ روکنے کا نام ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِِیْمَانَہٗٓ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَقَدْ جَآئَکُمْ بِالْبَیِّنٰتِ مِنْ رَّبِّکُمْ وَاِِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِبُہٗ وَاِِنْ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ اِِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ﴾ [المؤمن: ۲۸] ’’موسیٰ کی قوم کے اس آدمی نے کہا جو دل میں ایمان کو چھپائے ہوئے تھا: تم ایک آدمی کو محض اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ یہ کہتا ہے کہ اس کا پروردگار اﷲ ہے اور وہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نشانیاں بھی لا یا ہے، اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہے تو تمھیں اس میں سے کچھ نہ کچھ حاصل ہو جائے گا جس کا وہ وعدہ کرتا ہے، بے شک اﷲ تعالیٰ زیادتی کرنے اوربہت جھوٹ بولنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ مردانگی آدمی کو ممنوع امور کے مقابلے میں ڈٹ جانے اور دنیوی رنگینیوں سے بالا ہو جانے پر آمادہ کرتی ہے اور بندے میں قیامت کے مشکل دن کا ڈر پیدا کرتی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ رِجَالٌ لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ﴾ [النور: ۳۷] ’’کچھ مرد وہ ہیں جنھیں تجارت، اﷲ کے ذکر، نماز ادا کرنے اور زکات دینے سے غافل نہیں کرتی، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں، جس دن دل اور آنکھیں اُلٹ پلٹ ہو جائیں گی۔‘‘ حقیقی مرد قول و قرار کا سچا، وعدہ وفا کرنے والا اور ثابت قدمی والا ہوتا ہے، چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا﴾ [الأحزاب: ۲۳]