کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 100
نے حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت کہا تھا: (( وَاللّٰہِ إِنِّيْ لَأُقَبِّلُکَ، وَإِنِّيْ أَعْلَمُ أَنَّکَ حَجَرٌ، وَأَنَّکَ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّيْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَبَّلَکَ مَا قَبَّلْتُکَ )) [1] ’’اﷲ کی قسم! بلاشبہہ یقینا میں تجھے بوسہ دیتا ہوں، بے شک میں جانتا ہوں کہ یقینا تو ایک پتھر ہے، بلاشبہہ تو نقصان پہنچاتا ہے اور نہ نفع، اگر میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘ قصہ مختصر کسی بھی چیز سے تبرک حاصل کرنا تب جائز ہوتا ہے، جب کتاب اﷲ اور سنتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے ساتھ تبرک حاصل کرنا جائز ثابت ہوتا ہو۔ مسلمانو! تباہی اور ہلاکت میں مبتلا کرنے والے شرک میں سے فوت شدگان سے استغاثہ کرنا، انھیں پکارنا، ان کے نام کی دہائی دینا، حاجتیں پوری کروانے اور سختیاں دور کروانے کے لیے ان سے سوال کرنا، ان کے لیے جانور ذبح کر کے، ان کے نام کی نذریں مان کر، ان کی قبروں کا طواف کر کے، ان کے آستانوں، دیواروں اور ان پر لگے پردوں کو چوم کر، ان کی قبروں کے پاس اعتکاف کر کے، ان قبروں پر مجاور اور دربان مقرر کرنا ہے، اس کے سوا دیگر وہ تمام کام جو بتوں کے پجاریوں اور شیطان کے یاروں کے اعمال میں سے ہیں، یہی وہ شرک اکبر ہے جو کتاب اﷲ اور سنت سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کیے گئے عمل کو بھی برباد کرنے والا ہے۔ اﷲ جل و علا فرماتا ہے: ﴿ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لاَّ یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُوْنَ . وَاِِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآئً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ﴾ [الأحقاف: ۵، ۶] ’’اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے جو اﷲ کے سوا انھیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے اور وہ ان کے پکارنے سے بے خبر ہیں۔ اور جب سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے منکر ہوں گے۔‘‘
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۵۳۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۲۷۰)