کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 72
خشک ہوجاتے اور ان کی شادابی خزاں رسیدہ ہوجاتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ حقوق العباد کے بوجھوں کے ڈھیروں تلے جن پر اس نے دنیا کی زندگی میں ناحق ظلم کیا تھا، بلکہ ظلم اور زیادتی کا اس نے بازار گرم کر رکھا تھا، اس کے گھر پر بے رحمی اور زیادتی کے جھنڈے لہرا رہے تھے، اس کی کھیتی میں ظلم کے خبیث درخت ستم ظریفی کے کڑوے پھلوں سے لدھے پھدے تھے، جس کے ہوتے ہوئے اس کے نیک اعمال میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے، اعمال صالحہ کے پھول مرجھا جاتے ہیں، نیکی کے چشمے خشک ہوجاتے ہیں، ان کی شادابی خزاں رسیدہ ہوجاتی ہے اور اس کا سارا ذخیرہ خزاں رسیدہ پتوں کے مانند ہوجاتا ہے، اور انجام کار یہ حقیقی مفلسی سے دو چار ہوجاتا ہے، کیونکہ اب یہ وہ کرنسی خرچ کرنے پر مجبور ہے جو اپنی قیمت کھو چکی ہے، وہ بیلنس استعمال کرنا چاہتا ہے جو بکھر چکا ہے، اس کرنٹ اکاونٹ سے خرچ کرنا چاہتا ہے جو منجمد اور بند ہوچکا ہے، وہ ایسا چیک دے رہا ہے جو بوگس ہوچکا ہے۔ اب اس جیسے شخص کے لیے، جس کا دیوالیہ نکل چکا ہے کہ نیک اعمال کی کرنسی ختم ہوچکی ہے، اعمال کا بیلنس فنا ہوچکا ہے، باقی رہنے والے نیک اعمال کے ذخیروں کا کرنٹ اکاونٹ بند ہو چکا ہے، کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنے گم شدہ اور ہاتھ سے نکل جانے والے مال کو دوبارہ اپنے قبضے میں لا سکے؟! کچھ لوگ یہ بدگمانی کرتے ہیں کہ یہ صحیح حدیث اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ مذکورہ بالا فرمان، جو مفلسی کی حقیقت بیان کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان کے خلاف ہے: { وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی} [الأنعام: ۱۶۴] ’’اور نہ کوئی بوجھ اٹھانے والی کسی دوسری کا بوجھ اٹھائے گی۔‘‘ اس گمان کی بنا پر یہ لوگ اس حدیث کو رد کرتے ہیں، اس پر تنقید کرتے ہیں اور اسے باطل قرار دیتے ہیں، بلاشبہ یہ لوگ اس قرآنی آیت اور حدیث کے مفہوم سے صحیح طور پر آشنا نہیں کیونکہ حقیقت میں ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ اس مفلس کو، جس طرح اہل سنت والجماعت کہتے ہیں، اس کے اپنے فعل، بوجھ اور ظلم کی سزا دی گئی ہے، لہٰذا اس کے قرض خواہوں کے جو حقوق تھے وہ اس کے سامنے لائے گئے تو انھیں اس کی نیکیاں دے دی گئیں، جب نیکیاں ختم ہوگئیں اور حقوق ابھی باقی تھے تو ان باقی ماندہ کی ادائیگی کو اﷲ