کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 69
تیسرا خطبہ حقیقی فقیری اور مفلسی امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اُسامہ خیاط حفظہ اللہ خطبۂ مسنونہ اور حمد و ثنا کے بعد: اے اﷲ کے بندو! اﷲ تعالیٰ سے ڈرو، بے شک بندہ اتنی دیر تک خیر کے ساتھ رہتا ہے جب تک وہ اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا رہے، اپنے آقا کی طرف متوجہ رہے، اپنے نفس اور خواہش کی مخالفت کرے اور اپنی دنیا سے سامانِ آخرت پیدا کرے۔ اعمال کی حفاظت اموال کی حفاظت سے زیادہ اہم ہے: اے مسلمانو! دور اندیش نظر، بیدار مغز، باشعور بصیرت اور فعال ہوشمندی یہ وہ ساری چیزیں ہیں جنھیں عقلمند افراد تمناؤں کے حصول، آرزؤں کے ادراک، مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے اور دنیا و آخرت میں نیک بختی پانے کے لیے بطور وسیلہ استعمال کرتے ہیں۔ آپ انھیں دیکھتے ہیں کہ وہ اس مقصد کی خاطر ہر راستے کی بادیہ پیمائی کرتے ہیں اور اچھی اور بری کے درمیان تمیز، اور جھاگ اور نیچے رہ جانے والی مفید اشیا کے درمیان فرق کرنے کے لیے ہر وسیلہ استعمال کرتے ہیں۔ آپ انھیں پائیں گے کہ یہ قوتِ محرکہ، شدتِ رغبت اور کمالِ طلب کے باوجود ایک ایسی زود حسی، ڈر اور خدشے کا شکار رہتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ انھوں نے جو مضبوط عمارت تعمیر کی ہے اس میں کہیں کوئی دراڑ واقع نہ ہوجائے یا ایسے سوراخ پیدا نہ ہوجائیں جو ان کے ذخیرہ کردہ اعمال کے خزانوں اور باقی رہنے والے نیک افعال کے ذخیروں میں کسی قسم کی کمی یا نقب زنی کا سبب بن جائیں کیونکہ انھوں نے یہ نیک اعمال بڑے قیمتی ایام اور بہترین اوقات صرف کر کے حاصل کیے ہیں۔ وہ اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ تھوڑے کا جانا زیادہ جانے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ چھوٹے کاموں میں لاپرواہی کرنا بڑے بڑے کاموں میں کوتاہی برتنے کا باعث ہوتا ہے، اور صغیرہ گناہوں کو حقیر سمجھنا کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہونے کا سبب بن جاتا ہے، خصوصاً جب معاملات کو ہلکا سمجھا جائے، ان کے اسباب مستقل موجود رہیں، ان کی اصل باقی رہے اور فرق مٹانے، کمی پوری کرنے اور نادرست کو درست کرنے میں غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا جائے۔ جس طرح یہ عقلمند حضرات اپنے اعمال کی حفاظت کے سلسلے میں بڑے محتاط ہوتے ہیں بالکل