کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 64
ایک روایت میں ہے: ’’اگر اس کو نکالتے نکالتے میری جان بھی چلی جاتی تو میں اسے بھی نکال دیتا۔ اے اﷲ! میں بری ہوں جو رگوں نے اٹھایا اور آنتڑیوں کے ساتھ خلط ملط ہوگیا۔‘‘[1] بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دودھ پیا جو آپ کو بہت زیادہ پسند آیا۔ آپ نے پلانے والے سے پوچھا: یہ کہاں سے لائے ہو؟ اس نے کہا: میں صدقے کے اونٹوں کے پاس سے گزرا جو گھاٹ پر پانی پی رہے تھے تو میں نے ان کا دودھ دوہ لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ منہ میں ڈالا اور قَے کر دی۔[2] ایک نیک عورت نے اپنے خاوند کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: ’’اے اﷲ کے بندے! ہمارے رزق کے معاملے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈر جا کیونکہ ہم بھوک تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن آگ نہیں!‘‘ کتنی عجیب بات ہے کہ کچھ لوگ بیماری کے ڈر سے تو حلال سے بچتے ہیں لیکن آگ کے ڈر سے حرام سے نہیں بچتے! یہ اس لیے کہ دل سخت ہوچکے ہیں، لوگوں پر غفلت چھا چکی ہے، ایمان کمزور ہوچکا ہے اور دین میں بصیرت کی بہت زیادہ کمی واقع ہوچکی ہے۔ حرام کمائی کے معاشرتی اثرات: اﷲ کے بندو! حرام کمائی فرد اور معاشرے دونوں پر بہت برے اثر ڈالتی ہے۔ یہ دینداری اور بصیرت ختم کر دیتی ہے، روزی سے برکت مٹا دیتی ہے، اور مصیبتوں، آفتوں، زبردست مالی بحرانوں، بے روزگاری، بغض، دشمنی اور عداوت کو جنم دیتی ہے۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ کچھ لوگ حرام کمائی سے بالکل پرہیز نہیں کرتے بلکہ جس طریقے اور وسیلے سے بھی ممکن ہو اسے حاصل کرتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مال و دولت کے ڈھیر اکٹھے کر لیں، اثاثوں کے انبار لگ جائیں۔ ان کے نزدیک وہ سب حلال ہے جسے حاصل کر سکیں اور وہ سب حرام ہے جسے حاصل کرنے سے عاجز آجائیں۔ اس کی طلب میں وہ ہر غلط اور مشکوک راہ پر
[1] حلیۃ الأولیاء (۱/ ۳۱) [2] ضعیف۔ موطأ الإمام مالک (۲/ ۳۷۹) رقم الحدیث (۹۲۴) اس کی سند منقطع ہے۔