کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 62
راضی کرتا ہوں۔‘‘ پاکیزہ کمائی اور حلال مال دل کو منور کرتا ہے، سینہ فراخ کرتا ہے، اطمینان و سکون اور خشیتِ الٰہی کا وارث بناتا ہے اور اعضائِ بدن کی عبادت و فرمانبرداری میں مدد کرتا ہے، بلکہ یہ عمل صالح اور دعا کی قبولیت کا ایک اہم سبب ہے۔ جبکہ گندی اور حرام کمائی آدمی کے لیے نحوست اور مصیبت ہوتی ہے، اس کی وجہ سے اس کا دل سخت ہوجاتا ہے، ایمان کی روشنی بجھ جاتی ہے، اﷲ کا غضب اتر آتا ہے، اور دعا قبول نہیں ہوتی۔ حرام مال کی جڑیں بڑی گندی ہوتی ہیں۔ اس سے برکت اٹھ جاتی ہے، اگر آدمی اسے نیکی میں صرف کرے تو اسے اس کا اجر نہیں ملتا، اگر کسی مفید کام میں خرچ کرے کوئی اس کا شکریہ ادا نہیں کرتا، بلکہ وہ اس گناہ کا بوجھ اٹھاتا ہے جس پر اس کو سزا دی جائے گی۔ کسی دانشور کا کہنا ہے: ’’بد ترین ہے وہ مال جس کی کمائی کا گناہ تیرے سر ہو اور تواسے خرچ کرنے کے اجر سے محروم ہو۔‘‘ طبرانی میں حدیث ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اﷲ تعالیٰ سے دعا کیجیے وہ مجھے مستجاب الدعوات بنا دے (یعنی میں جو دعا کروں وہ قبول ہوجائے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: اے سعد! اپنا کھانا پاک کر تو مستجاب الدعوات ہوجائے گا۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا ایک لقمہ ڈال لے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور جس بندے کا گوشت حرام اور سود سے پرورش پائے تو آگ ہی اس کا صحیح ٹھکانہ ہے۔‘‘[1] صحیح مسلم میں ہے: ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکر کیا جو لمبا سفر طے کرتا ہے، اس کے بال پراگندہ
[1] ضعیف جدا۔ المعجم الأوسط للطبراني (۲/ ۳۱) اس کی سند میں ایک سے زیادہ راوی ضعیف ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: مجمع الزوائد (۱۸۱۰۱) السلسلۃ الضعیفۃ، رقم الحدیث (۱۸۱۲) البتہ یہ الفاظ جو گوشت حرام غذا سے پرورش پاتا ہے تو وہ آگ ہی کے لائق ہے ۔ صحیح حدیث میں موجود ہے ۔