کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 555
’’اے ابن آدم! تم خود ایام ہو اور جب ایک دن گزر جاتا ہے تو سمجھو کہ تمہارے وجود کا ایک حصہ تم سے رخصت ہو گیا۔‘‘ دقیق محاسبۂ نفس: اﷲ کے بندو! یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جس میں ہم اپنی ذات کی طرف رجوع کریں اور اپنے نفس کا خوب محاسبۂ کریں، جس طرح ایک سمجھدار تاجر اپنے مال کا حساب کتاب کرتا ہے، آپ نے دیکھا نہیں کہ وہ ایک طے شدہ زمانہ اور مقرر وقت پر اپنے حسابات چیک کرتا ہے تاکہ دیکھے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ کتنا نفع کمایا اور کتنا نقصان اٹھایا؟ پھر وہ نقصان کے اسباب ڈھونڈتا ہے اور دیکھتا ہے کہ کہاں غلطی ہوئی اور کہاں معاملہ صحیح رہا؟ ایک سمجھدار و عقلمند اور باہوش مسلمان کو بھی یہی انداز اختیا ر کرنا چاہیے تاکہ اس کے اغراض و مقاصد اور غایات و اہداف کے شرف میں اضافہ ہو۔ کیونکہ محاسبۂ نفس حقیقی منافع اور کمائی کے تحفظ کا باعث ہے۔ ایساکرتے رہنے سے تجارت میں نقصان ہوتا ہے نہ کساد بازاری آتی ہے اور نہ نفع ہی میں کمی واقع ہوتی ہے، کیونکہ مسلمان کا بزنس تو نیکیوں کی کمائی ہے جن کا اﷲ تعالی نے بہت بلند مقام اور عالی شان بنائی ہے اور دیگر تمام دولتوں پر اسے فوقیت عطا فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے: { اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا} [الکھف: ۴۶] ’’یہ مال و دولت محض دنیوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے، اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انھی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اہل عقل و بصیرت ذات کے محاسبہ پر بڑی توجہ دیا کرتے ہیں اور بیدار مغز لوگ اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کے بڑے حریص ہوا کرتے ہیں، اہل عقل و رشد کا یہی طریقہ ہے اور اﷲ تعالی سے تعلق رکھنے والوں کا یہی انداز ہے۔ اس مراجعہ و محاسبہ سے انھیں اس دنیا کے لہو و لعب، لغویات اور آرائش و زینت جیسی کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ وہ زندگی کا سفر