کتاب: خطبات حرمین(جلد1) - صفحہ 509
’’میں لعنت و ملامت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، بلکہ میں تو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں، اے اﷲ! میری قوم کو ہدایت نصیب فرما، کیونکہ یہ جانتے نہیں۔‘‘ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: )) اذھبوا، أنتم الطلقاء )) [1] ’’جاؤ، تم آزاد ہو۔‘‘ کسی جنگ میں آپ نے ایک مقتولہ عورت دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضی کا اظہار فرمایا اور کہا: )) ما کانت ھذہ لتقاتل )) [2] ’’یہ تو لڑ نہیں سکتی تھی!‘‘ اسی طرح ہماری یہ قابل عظمت تاریخ اس طرح کے عظیم الشان کارنامے رقم کرتی جاتی ہے۔ تاتاریوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں میں جب بہت سارے مسلمان اور ذمی (اسلامی سلطنت میں معاہدے کے تحت رہنے والے کافر) ان کے ہاتھوں جنگی قیدی بن گئے تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے قیدی چھڑوانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا، گورنر نے صرف مسلمان قیدی آزادی کرنے کی حامی بھری، لیکن شیخ الاسلام نے اس سے انکار کر دیا اور فرمایا: ’’تمام قیدیوں کو چھڑوانا ضروری ہے، خواہ وہ ہمارے دین پر ہوں یا ہمارے اہل ذمہ۔ نہ ہم اپنا کوئی اہل دین قیدی رہنے دیں گے اور نہ اہل ذمہ ہی۔‘‘ ہماری تہذیب اس طرح مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ پیش آتی ہے۔ جب صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے بیت المقدس فتح کیا تو اس میں ایک لاکھ سے زائد غیر مسلم تھے، انھوں نے ان کو ان کی جانوں اور اموال کی امان دی اور انھیں ایک معمولی رقم کے عوض، وہ بھی اس کے لیے جو اسے ادا کرنے پر قادر ہو، وہاں سے نکل جانے کی اجازت دے دی، اور جو فقیر اسے ادا کرنے پر قادر نہیں تھا تو اس کا فدیہ انھوں نے خود ادا کیا۔ یہ ہے ہماری شاندار اور عظیم الشان تہذیب۔ اس کے مقابلے میں ان کی تہذیب کیا ہے؟ قباحت اور ہولناکی سے بھرپور؟!